صیہونی وزیر اعظم کو حماس کے زیر حراست 100 سے زائد یرغمالیوں کو وطن واپس لانے کے لیے داخلی دباؤ کا سامنا
صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہونے واضح کیا ہے کہ غزہ میں کارروائی ختم ہونے کے قریب نہیں ہے کیونکہ وہاں قید 100 سے زائد صیہونی یرغمالیوں کو وطن واپس لانے کے معاہدے تک پہنچنے کے لئے شدید داخلی دباؤ کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو نے پیر 25 دسمبر کو غزہ کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ ، ’ہم آنے والے دنوں میں لڑائی کو وسعت دے رہے ہیں اور یہ ایک طویل لڑائی ہوگی۔
پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران صیہونی وزیراعظم نے جنگ جاری رکھنے کا عہد کیا تو اس دوران یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے انہیں روکا اور اپنے عزیزوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔
80 دن قید میں رہنے کے بعد اپنے پیاروں کی واپسی کا انتظار کرنے والے خاندانوں نے وزیر اعظم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی افواج کو حماس پر فوجی دباؤ بڑھانے کے لیے ”مزید وقت“ کی ضرورت ہے، جس سے قیدیوں کی رہائی میں مدد ملے گی۔
یرغمالیوں کے حق میں مظاہرین جنگی کابینہ کے اجلاس سے قبل وسطی تل ابیب میں وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر کے قریب جمع ہوئے ، انہوں نے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا ’ہمارے یرغمالیوں کو اب کسی بھی قیمت پر رہا کیا جائے‘۔
پیر کے روز حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپید نے کہا تھا کہ صیہونی حکومت کو یرغمالیوں کو اب وطن واپس لانے کی ضرورت ہے۔
صیہونی حکومت پر قریبی اتحادی امریکا کی جانب سے دباؤ ہے کہ وہ غزہ میں کارروائیوں کی شدت کم کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو کم کرے۔
حماس کی جانب سے صیہونی حکومت پر 7 اکتوبر کو کیے گئے حملے کے جواب میں صیہونی حکومت نے جنگ کا اعلان کیا تھا۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے 1140 افراد کو ہلاک اور 240 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ حماس کے زیر انتظام صحت سروس کے مطابق غزہ میں اب تک 20 ہزار 400 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
غزہ میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہاتوار کی رات صیہونی فضائی حملوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں سے کم از کم 70 افراد دیر البلاح کے قریب مغازی پناہ گزین کیمپ میں ایک رہائشی بلاک پر ہونے والے بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔ صیہونی فوج کے مطابق واقعے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک طویل عرصے سے منتظر قرارداد کے باوجود جس میں جنگ بندی کے لیے تمام فریقوں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، دسمبر کے آغاز میں سات روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے جمعے کو زمینی لڑائی میں شدت آئی ہے۔
منگل کی صبح فلسطینی باشندوں نے جنوبی غزہ کی پٹی میں سب سے بڑے طبی مرکز خان یونس میں ناصر اسپتال کے قریب متعدد فضائی حملوں کی اطلاع دی۔ فلسطینی صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ خان یونس کے علاقے العمل میں ایک گھر پر صیہونی فضائی حملے میں7 افراد ہلاک ہوئے۔
دریں اثناء صیہونی حکومت اور حماس کی جانب سے جنگ کے خاتمے کی مصرکی تجویز کا عوامی سطح پر قدرے سرد ردعمل دیا گیا۔
تین مرحلوں پر مشتمل اس منصوبے میں کم از کم ایک ہفتے کے لیے لڑائی کا ابتدائی خاتمہ اور غزہ میں قید باقی تمام صیہونی شہری یرغمالیوں کی رہائی شامل ہوگی۔ پھر ایک ہفتہ جس میں صیہونی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے خواتین فوجیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اور آخر کار صیہونی انخلا کے بدلے مرد فوجیوں کی رہائی کے لئے ایک ماہ کے طویل مذاکراتی مدت ہوں گے۔
25 دسمبر کی شب اطلاع ملی تھہ کہ حماس اور اسلامی جہاد نے مصر کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صیہونی جنگی کابینہ مصر کی تجویز پر تبادلہ خیال کر رہی ہے۔
نیتن یاہو نے وال اسٹریٹ جرنل میں ”امن کے لیے تین شرطوں“ کا خاکہ پیش کیا، جن میں حماس کی تباہی، ”غزہ کو غیر فوجی بنانا“ اور ”فلسطینی معاشرے کا شدت پسندی کا خاتمہ“ شامل ہیں۔
اپنے مضمون میں صیہونی وزیراعظم نے کہا کہ ایک بار جب یہ اہداف حاصل ہو جائیں گے تو غزہ کی تعمیر نو کی جا سکتی ہے اور مشرق وسطیٰ میں وسیع تر امن کے امکانات حقیقت بن جائیں گے۔