غزہ پر صیہونی جارحیت کا سلسلہ نہ رک سکا جہاں صیہونی فضائیہ کی جبالیہ کیمپ پر بمباری سے مزید 90 فلسطینی شہید جب کہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔
غزہ کے جبالیہ کیمپ میں شہاب خاندان کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا، صیہونی حملے کے نتیجے میں 20 افراد شہید اور 100 زخمی ہوگئے جب کہ حملے میں قریبی گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
صیہونی فورسز نے غزہ کے کمال عدوان اسپتال کا محاصرہ ختم کردیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے شمالی غزہ میں کمال عدوان اسپتال کی تباہی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کمال عدوان اسپتال کے غیرفعال ہونے سے 8 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
رفح میں زوردار دھماکے میں رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا گیا، دھماکے میں 2 افراد شہید اورہ متعدد افراد زخمی ہوگئے، صیہونی طیاروں نے خان یونس کے مشرق میں بنی سہیلہ سمیت جنوب مشرقی علاقے میں بھی دو حملے کئے۔
ادھر مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین کے بعد صیہونی افواج کی جانب سے نورالشمس کیمپ پر جارحانہ کارروائی کی گئی، صیہونی طیارے کے حملے میں مزید 5 فلسطینی شہید ہوگئے جب کہ صیہونی فورسز نے ایمبولینسوں کو بھی کیمپ جانے سے روک دیا۔
حملے کے مقام پر طبی امداد نہ پہنچنے کے باعث 2 فلسطینی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے جبکہ صیہونی افواج نے ایمبولینس کے اندر سے طبی عملے کے ایک اہلکار کو بھی گرفتار کرلیا۔
دوسری جانب الجزیرہ کی جانب سے اپنے صحافی کے قتل کے معاملے پرعالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں صیہونی جارحیت کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے بھی بھرپور جوابی کارروائیاں جاری ہیں، حماس کے حملوں میں صیہونی فوج نے اپنے مزید 2 فوجیوں کی ہلاکتوں کا اعتراف کرلیا، غزہ جنگ میں زمینی جنگ شروع کرنے کے بعد ہلاک صیہونی فوجیوں کی تعداد 121 ہوگئی۔
مصری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں نئی عارضی جنگ بندی کیلئے اسرائیل، قطر اور مصری حکام کے درمیان بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔
7 اکتوبر کے بعد سے پہلی بار صیہونی علاقے کی طرف سے کرم شیلونگ کراسنگ کے راستے امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے، غزہ میں 4 روز سے بند مواصلات اور انٹرنیٹ سروسز بھی جزوی بحال ہونا شروع ہو گئیں ہے۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر صیہونی حملوں کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 18 ہزار700 سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ 50 ہزار 897 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں، صیہونی حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔