افغانستان میں امن کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دروغ گوئی کی حدیں پار کرتے ہوئے پاکستان مخالف افواہ پھیلانی کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کی ملک بدری کی آڑ میں افغانستان میں دہشتگردی پھیلا سکتا ہے۔
خلیل زاد نے ایکس پر کی گئی اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ’باخبر افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ افغان مہاجرین کی بے دخلی کو داعش دہشت گردوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ مجھے بھی اس پر تشویش ہے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے پاکستان کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی پر شکریہ ادا کیا تھا۔ اور بظاہر لگتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات کچھ حلقوں کو ہضم نہیں ہو رہے۔
افغان خبر رساں ادارے ”طلوع نیوز“ کے مطابق، اسی طرح کا بے بنیاد الزام افغان سیاسی تجزیہ کار نجیب الرحمان شمال نے بھی لگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی برادری، خاص طور پر خلیل زاد اور دیگر اداروں کے خدشات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ پاکستان ایک بار پھر افغان مہاجرین کی ملک بدری کو بنیاد بنا کر داعش یا دیگر دہشت گردوں کو افغانستان داخل کر سکتا ہے، جو خطے میں عدم استحکام اور بدامنی کا باعث بنے گا۔‘
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق اپریل کے پہلے دو ہفتوں میں صرف طورخم اور اسپن بولدک کے راستے تقریباً 60 ہزار افغان مہاجرین واپس بھیجے گئے ہیں۔ ادارے کے مطابق ان میں سے صرف 16 ہزار افراد کو افغانستان میں فوری امداد فراہم کی گئی ہے۔
بے دخل افغانوں کی مشکلات
پاکستان سے حالیہ دنوں میں واپس جانے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان میں رہائش، خوراک اور روزگار جیسے بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔
مہاجرین کی مجموعی واپسی
آئی او ایم کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے اپریل 2025 تک پاکستان اور ایران سے مجموعی طور پر 24 لاکھ افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں، جن میں سے 54 فیصد کو زبردستی ملک بدر کیا گیا۔