امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اُٹھاتے ہی انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی قبضہ گروپوں اور افراد پر بائیڈن انتظامیہ کی عائد کردہ پابندیاں ختم کر دیں۔
یہ پابندیاں اُن 78 ایگزیکٹو احکامات میں شامل ہیں جنہیں ٹرمپ نے دفتر سنبھالتے ہی منسوخ کر دیا ہے۔
سابق صدر جو بائیڈن کے ایک بڑے پالیسی اقدام کے تحت متعدد اسرائیلی قابضین اور اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور اُن کے امریکی اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے، یہ قابضین یا اسرائیلی آبادکار مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری کابینہ بڑی حد تک اسرائیل نواز ہے، امریکی سینیٹ نے بطور نئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی منظوری دے دی ہے، جنہوں نے 16 جنوری کو سینیٹ منظوری کے دوران کہا تھا کہ یہ امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ اسرائیل حامی انتظامیہ ہوگی۔
مارکو روبیو نے خاص طور پر عہد کیا تھا کہ وہ اُن پابندیوں کو ختم کریں گے جو بائیڈن انتظامیہ نے 2024 میں 8 مختلف مراحل میں اسرائیلی قابضین اور اداروں پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر شدید تشدد کرنے پر عائد کی تھیں۔
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری تقریب میں بھی غزہ جنگ بندی معاہدے کا کریڈٹ لیا لیکن اُن کے صدر بنتے ہیں اسرائیل کے چیف آف اسٹاف نے فوج کو مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر حملوں کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دی جس کے بعد آج اسرائیلی فوج نے جنین کیمپ میں بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔
اسرائیلی چیف آف اسٹاف نے فوج کو غزہ اور لبنان میں بھی مسلسل حملوں کی منصوبہ بندی کا حکم دیا ہے۔
ترک اور عرب میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی موجودہ انتظامیہ امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ صیہونی انتظامیہ ہوگی۔