استعفیٰ نہیں دونگا، تحریک عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو طاقتور ہوکر واپس آؤں گا، وزیراعظم

0 232

سرکاری ٹی وی کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے قوم سے اہم بات کرنی ہے، ملک کے مستقبل کے لیے میرا یہ خطاب براہ راست ہے جس کا مقصد قوم کو اعتماد میں لینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح بہت بڑے سیاست دان اور وکیل تھے، زیادہ تر لوگ کو سیاست سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، اللہ نے مجھے سب کچھ دیا، میری زندگی میں ضرورت سے زائد پیسہ تھا میرے پاس سب کچھ تھا لیکن میں پھر بھی سیاست میں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے والدین غلامی کے دور میں پیدا ہوئے، وہ تحریک پاکستان میں شریک تھے اور مجھے احساس دلاتے تھے کہ تم آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہو، خودداری آزاد قوم کی پہچان ہوتی ہے، سیاست میں اس لیے آیا کہ ہمارا ملک کبھی بھی وہ ملک نہیں بن سکتا جو علامہ اقبال اور محمد علی جناح کا خواب تھا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا اور اس کا تصور ریاست مدینہ ہے، جب میں نے 25 برس قبل سیاست شروع کی، میں نے منشور میں انصاف کو شامل کیا تاکہ طاقتور اور کمزور کے لیے قانون یکساں ہو۔

انہوں نے کہا کہ کلمہ طیبہ انسان کو غلامی سے آزاد کرتا ہے، میرے پاس سب کچھ موجود تھا ایسا انسان اپنی زندگی کے بائیس سال خرچ کرکے سیاست میں کیوں آئے گا؟ وجہ کیا ہے؟ مجھے سے لوگ سوال کرتے تھے کہ سیاست میں کیوں آیا؟ اپنی قوم کی خاطر آیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک مسلمان قوم غلام قوم نہیں بن سکتی، پیسے اور خوف کی غلامی شرک ہے، یہ سب ہمارے منشور میں شامل ہیں، اگر ایمان نہیں ہوتا تو سیاست میں نہیں ہوتا۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک پر بیرونی طاقتیں اثرانداز ہوتی ہیں، میں نے فیصلہ کیا کہ اقتدار میں آیا تو ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی ایک آزاد پالیسی ہوگی جو کہ پاکستانیوں کے لیے ہوگی، وہ پالیسی جو ہمارے مفادات پر مبنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمیں اسی کمرے میں کہا گیا کہ امریکا کی حمایت نہیں کی تو وہ زخمی ریچھ کی طرح ہمیں ہی نہ مار دے، افغان جہاد کے بعد دو سال بعد ہی امریکا ہم پر پابندیاں لگادیتا ہے، نائن الیون کے بعد واشنگٹن کو ہماری حمایت کی ضرورت پڑجاتی ہے لیکن جو حمایت ہم نے کی اور پاکستانیوں نے اپنی 80 ہزار جانوں کی قربانی دی کسی نیٹو ملک نے اتنی جانیں نہیں دیں۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا اس کے باوجود ہم اس جنگ میں شامل ہوئے، قبائلی علاقوں میں شادیوں، مدرسوں اور دیگر اجتماعات پر ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے، کون سے قانون میں لکھا ہے کہ آپ کا اپنا جس کے لیے آپ جنگ لڑیں وہ آپ پر ہی ڈرون حملے کرے۔

عمران خان نے کہا کہ کسی آزاد ملک کے لیے جس طرح کا ہمیں پیغام آیا ہے ایک وزیراعظم کے خلاف دراصل وہ پوری قوم کے خلاف ہے، انہیں پہلے سے پتا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے، دراصل اپوزیشن پہلے سے ہی باہر کے لوگوں سے رابطے تھی، یہ لوگ صرف عمران خان کے خلاف ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر عمران خان چلا جائے تو پاکستان کو معاف کردیں گے، اگر یہ تحریک فیل ہوجاتی ہے تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ آفیشل ڈاکیو منٹ ہے جس میں ایک سفیر نے کہا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو آپ سے تعلقات خراب ہوں گے اور ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، قوم سے سوال ہے کہ ہم 22 کروڑ افراد کی قوم کی کیا یہ حیثیت ہے کہ بغیر وجہ بتائے وہ ہم پر فیصلے مسلط کردے؟ اور وجہ شاید یہ بتائے کہ روس جانے کا فیصلہ غلط ہے، روس جانے کا فیصلہ دراصل عسکری اور وزارت خارجہ کی مشاورت سے کیا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کے رابطے یہاں موجود وفادار غلاموں سے ہیں، یہ چاہ رہے ہیں وہ آجائیں جن کے اوپر اربوں مالیت کی کرپشن کے الزامات ہیں، کیا ہم اپنے ملک میں اس طرح کے لوگوں کی قیادت آنے دیں گے؟

عمران خان نے کہا کہ ’دوسرے ممالک چھوٹی سی کرپشن پر اپنے بڑے بڑے لوگوں کو نکال دیتے ہیں لیکن اب وہ لوگ یہاں پر موجود لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو نکالو، بیرون ملک کی ایجنسیوں کو ہمارے تمام سیاست دانوں کے اثاثوں کے بارے میں معلوم ہے، انہیں معلوم ہے کہ یہاں کتنی کرپشن کرتے رہے ہیں‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہیں ہمارے تین لوگ پسند آگئے، ان میں ایسی کیا خاص باتیں ہیں؟ ان کے اقتدار میں 400 امریکی ڈرون حملے ہوئے لیکن انہوں نے کبھی مزاحمت نہیں کی، وکی لیکس میں موجود ہے کہ ’فضل الرحمن نے پاکستان میں امریکی سفارت کار سے کہا کہ مجھے بھی خدمت کا موقع دیں۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی کی مخالفت نہیں کرتا لیکن میری اولین ترجیح 22 کروڑ عوام ہیں، ان کے لیے خارجہ پالیسی بناؤں گا، شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کا مقصد کچھ اور ہے، آپ کے بھائی صاحب تو بات کرہی نہیں سکتے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ’مراسلے پر شک کیا گیا، میں نے کابینہ کے سامنے مراسلہ رکھا، اس کے بعد قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کیا اور مراسلہ ان کے سامنے رکھا اور پھر صحافیوں کے سامنے پیش کیا، یہ مراسلہ اکسانے کے لیے نہیں ہے، اس ڈاکیومنٹ میں خطرناک الفاظ لکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی، اس اتوار کو ملک کا فیصلہ ہوگا کہ یہ کس طرف جائے گا، کیا یہ وہی لوگ ہوں گے جو کرپشن کرتے ہیں اور جن کے اثاثے ملک سے باہر ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ’ملک کے حالات ساڑھے تین سال میں کیا ہوگئے؟ لیکن متحدہ اپوزیشن تو 30 برس سے تھی، مجھے لوگوں نے کہا کہ میں استعفیٰ دے دوں، میں آخر گیند تک مقابلہ کرتا ہوں، تحریک عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ ہوگا اس کے بعد میں اور بھی تگڑا ہوجاؤں گا‘۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کا کیا پیغام مل رہا ہے، کوئی نہیں مان رہا کہ شہباز شریف، آصف علی زرداری، فضل الرحمن نظریاتی لوگ ہیں، یہ سب لوگ اپنے ضمیر، ملک کا سودا کررہے ہیں، جو لوگ اپنا سودا کرکے متحدہ اپویشن کی صفوں میں بیٹھے ہیں وہ یاد رکھیں لوگ انہیں کبھی نہیں بھولیں گے، آپ بیرون ملک سازش کا حصہ بنے ہیں، کوئی بھی آپ کو معاف نہیں کرے گا‘۔

وزیرا عظم عمران خان نے کہا کہ یہ تینوں اس دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، ساری زندگی قوم بھولے گی نہیں، یہ وہ کرنے جارہے ہیں کہ آنے والی نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گے، سازش کے خلاف کھڑا رہوں گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنے دور میں کوئی فیکٹری نہیں بنائی جب کہ نواز شریف نے اٹھارہ فیکٹریاں بنالیں، میں اپنے گھر میں رہوں گا لیکن یاد رہے کہ اس قوم سے غداری ہورہی ہے، یہ قوم کبھی آپ کو اور آپ کے پیچھے لوگوں کو معاف نہیں کرے گی، میں چپ کرکے نہیں بیٹھ جاؤں گا، ہرگز استعفی نہیں دوں گا بلکہ اس سازش کا آخری دم تک مقابلہ کروں گا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.