آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا، چیف جسٹس

0 204

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
جسٹس جمال خان نے پوچھا کہ کیا صدر مملکت اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں رائے لے سکتا ہے اور کیا اسمبلی عدالتی رائے کی پابند ہے، کیا اسپیکر کی ایڈوائس پر صدر نے ریفرنس بھیجا ہے؟
مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالت صدارتی ریفرنس سننے کی قانونی طور پر پابند نہیں ہے، ریفرنس میں سوال قانونی نہیں سیاسی ہیں لہذا واپس بھجوایا جائے، حکومت چاہتی ہے آرٹیکل 63 اے میں درج نتائج سے بڑھ کر اسے ریلیف ملے، صدر نے عدالت سے پوچھا ہے کہہ ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے، ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا، آپ کی گفتگو سے لگ رہا ہے پارٹی سے انحراف غلط کام نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جمہوریت کا حصہ ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جان بوجھ کر دیا گیا دھوکہ ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سے انحراف کو غلط کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟، سینیٹ الیکشن میں پیسوں کے لین دین کا ذکر تھا، پیسوں کے معاملے میں ثابت کرنا لازمی ہونا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل تریسٹھ اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مفروضہ پر بات کررہا ہوں اگر ایک ممبر اپنے ضمیر پر ووٹ دیتا ہے تو وہ ڈی سیٹ ہو گا، صرف چار شرائط پر عمل کرنے کے بعد ہی تریسٹھ اے لگے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس دفعہ تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا کیا گیا؟ انحراف کرنے والے واپس اپنی پارٹیوں میں واپس لیے جاتے رہے ہیں، ممکن ہے پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے کو پارٹی معاف کردے، عدالت آئین پر عمل درآمد کے لیے ہے، آئین کے آرٹیکل کو موثر ہونا ہے، سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے۔

ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ پارٹی سے انحراف لازمی نہیں غیر اخلاقی یا کرپشن کی بنیاد پر ہو، پارٹی سے انحراف اچھے مقصد کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.