قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا جس میں ڈپٹی اسپیکر نے وقفہ سوالات کو معطل کردیا۔
اپوزیشن کی جانب سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کی جس پر 152 ارکان کے دستخط موجود ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر نے قرارداد کے حامی ارکان کو اپنی بنچوں پر کھڑے ہونے کی ہدایت کی، گنتی کے بعد اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو اجلاس کی کارروائی میں شامل رکھتے ہوئے اس پر بحث 31 مارچ تک ملتوی کردی اور کہا کہ قومی اسمبلی کے قاعدہ 37 کے تحت اس پر بحث کی جائے گی۔
بعد ازاں 31 مارچ جمعرات شام 6 بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔
ایوان میں پارٹی پوزیشن
قومی اسمبلی کے ایوان میں کل نشستیں 341 ہیں جس میں سے 178 حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس ہیں جب کہ 163 ارکان اپوزیشن کے ہیں۔ تحریک کو کامیابی کے لیے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے، اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اسے مطلوبہ تعداد سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
حکومتی جماعت تحریک انصاف کے ایوان میں 155ارکان میں جب کہ اتحادیوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7، بی اے پی کے 5، ق لیگ کے 5، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3، اے پی ایم ایل کا ایک رکن ہے جبکہ دو امیدوار آزاد حیثیت سے رکن اسمبلی بننے کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل ہوئے۔
اسی طرح اپوزیشن میں مسلم لیگ (ن) کے 84، پیپلز پارٹی کے 56، ایم ایم اے کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4، اے این پی اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن ہے جبکہ دو ارکان اسمبلی آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے۔
تحریک عدم اعتماد پر ہفتے بھر میں ووٹنگ ہوجائےگی، اسپیکر کی اپوزیشن کو یقین دہانی
دریں اثنا اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں نے ملاقات کی جس میں قومی اسمبلی اجلاس کے قوانین سے متعلق بات چیت ہوئی۔
ذرائع کے مطابق اسپیکر نے اپوزیشن کو آئین کے مطابق اجلاس چلانے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ آج عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوگی اور ایک ہفتے کے اندر عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوجائے گی۔