کرونا وائرس اور تحقیق سے دور معاشرہ

0 257

تحریر: نذر حافی

 

تحقیق ایک مستقل عمل ہے۔ ماں کی گود سے لحد تک یہ عمل رُکتا نہیں۔ انسانی زندگی میں تحقیق ریل کی اُس پٹڑی کی مانند ہے، جس پر انسانی سماج چلتا ہے۔ یہی وجہ ے کہ تعلیمی ادارے نظریات و عقائد، سائنس و ہنر اور جسم و عقل کی متوازن رُشد کی خاطر اپنے طلباء کیلئے تحقیق کرنے کے معیاری انتظامات کرتے ہیں۔ اگر ان انتظامات کے باوجود کسی سماج میں تحقیقی رُجحان کم ہو تو وہاں کے نظامِ تعلیم میں ہی اِس کمی کا سبب تلاش کیا جائے گا۔ کرونا وائرس نے گذشتہ مختصر دورانئے میں ہمارے ہاں کے تحقیقی رُجحان کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔ اس وائرس کے آتے ہی، انسانیت کے مسیحا بنے ہوئے وہ سب لوگ بے نقاب ہوئے جن کا سائنس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ جو سائنس کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے، انہوں نے وائرس کے وجود کا انکار کیا اور لوگوں کو احتیاط نہ کرنے کی ترغیب دی، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد جسمانی و ذہنی طور پر معذور ہوئی۔ حالانکہ احتیاط کرکے بنی نوعِ انسان کو اس عظیم المیے سے بچایا جا سکتا تھا۔

بغیر سائنس کی جانکاری کے انسانی جانوں کے ساتھ یہ کھلواڑ اس وقت بھی جاری رہا کہ جب کرونا ویکسین مارکیٹ میں آگئی۔ عوام النّاس کو کہا گیا کہ خبردار جو لوگ یہ ویکسین لگوائیں گے، وہ دو سال کے اندر مر جائیں گے، اُن کی افزائشِ نسل نہیں ہوگی اور وہ ازدواج کے قابل نہیں رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لوگوں کو یہ وہم بھی ڈالا گیا ہے کہ ویکسین میں حرام جانوروں کے اجزا شامل کئے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ انسانوں کی خفیہ نگرانی کیلئے اس ویکسین میں ایک سِم یا چِپ ڈال دی گئی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے رہے کہ یہ وائرس 5G مواصلاتی سسٹم کی وجہ سے پھیلتا ہے، تاہم حقیقتِ حال یہ ہے کہ یہ وائرس وہاں بھی اُسی تیزی سے پھیلا جہاں 5G مواصلاتی سسٹم نہیں تھا۔

یہ افواہ ساز فیکٹریاں اپنی جگہ مذموم ہیں، لیکن لوگوں کی ایک اُس بڑی تعداد کو آپ کِس کھاتے میں ڈالیں گے، جنہوں نے ان افواہوں پر اعتماد کیا اور اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے۔ بغیر احتیاط کئے اور ویکسین لگوائے جو اِس دُنیا سے چلے گئے وہ تو چلے گئے، لیکن ابھی بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے، جنہوں نے ویکسین لگوائے بغیر ہی ویکسین کارڈ بنوا لئے ہیں۔ اگرچہ سندھ حکومت نے جعلی ویکسین کارڈ بنا کر دینے والوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کی تجویز دی ہے، تاہم ایسی تجاویز سے ایسے جرائم کو نہیں روکا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ سارے ملک میں جاری و ساری ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ ایران میں شیعہ مجتہدین نے خود بھی کرونا ویکسین لگوائی اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید کی، لیکن پاکستان میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ شیعہ مراجع تقلید نے پانی کے انجکشن لگواتے ہوئے تصاویر بنوائی ہیں، لہذا شیعہ حضرات ویکسین نہ لگوائیں۔ بہت سارے لوگوں نے ابھی تک مراجع کی تاکید اور تصاویر کو جعلی ہی سمجھ رکھا ہے۔ ہم بظاہر پڑھے لکھے لوگ ہیں، لیکن اپنے نظریات و عقائد میں اتنے ناپختہ اور کچے ہیں کہ پھکیاں اور معجونیں بیچنے والے چند چٹکلے سُنا کر ہمیں ہمارے مراجع تقلید اور مجتہدین کے بارے میں بدگمان کر دیتے ہیں۔ یوں تو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہد میں جی رہے ہیں، لیکن ہم رشوت لے کر لوگوں کو جعلی ویکسین کارڈ بنا کر دے دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اس طرح ہم نجانے کتنے ہی انسانوں کی معذوری اور ہلاکت کا سبب بن رہے ہیں۔

یاد رکھئے! اگر ہمارے ہاں نظریات و عقائد، سائنس اور ہُنر کو مراجع تقلید، مجتہدین اور سائنسدانوں سے لینے کے بجائے ٹھیلے والوں، نیز معجون و پھکی فروشوں سے لیا جاتا ہے تو پھر ہمیں عوام کی نظریاتی و علمی پُختگی کیلئے اپنے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر نظرِثانی کی اشد ضرورت ہے۔ آخر ہم تعلیم و تربیت کے نام پر یہ کیسی نسل تیار کر رہے ہیں، جو مجتہدین، محققین اور سائنسدانوں کے بجائے چھابڑی والوں کی تقلید کرتی ہے۔ وہ قانون کا احترام ہو یا نظریات و عقائد کے مسائل، وہ انسانی صحت کی بات ہو یا ماحول اور جنگلات کا تحفظ، وہ معاشرتی رواداری ہو یا باہمی حُسنِ سلوک، یہ سب نظامِ تعلیم کا مرہونِ منت ہے۔ تعلیمی ادارے نظریات و عقائد، سائنس و ہنر اور جسم و عقل کے متوازن رُشد کی خاطر اپنے طلباء کیلئے تحقیق کرنے کے معیاری انتظامات کرتے ہیں۔ اگر ان انتظامات کے باوجود کسی سماج میں تحقیقی رُجحان کم ہو تو وہاں کے نظامِ تعلیم میں ہی اِس کمی کا سبب تلاش کیا جائے گا۔ ایک متوازن اور جامع نظامِ تعلیم ہی ہمارے ہاں تحقیقی رُجحان کو فروغ دے سکتا ہے اور ہماری ملی تقدیر کو سنوار سکتا ہے۔ بقولِ شاعر

ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے

شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.