سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس کے فیصلے میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی نظر ثانی کی درخواستیں خارج کر دی جبکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نظرثانی اپیلیں واپس لے لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا آپ اب کیا چاہتے ہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہ میں چاہتا ہوں ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عدالت مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، جسٹس منیب اختر کے سوالات خوش آئند لیکن خوفناک ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا مجھے سوال پوچھ تو لینے دیں، آپ پہلے ہی ڈرا رہے ہیں، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات عام نہیں ہوتے، وہ محض افسران نہیں ہوتے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا وہ قانون دکھا دیں جس کے تحت اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات دیے گئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سابق اسپیکرز کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ آرٹیکل 69 ٹو سے آگے نہیں بڑھ پا رہے جبکہ جسٹس مندوخیل نے کہا رولنگ ہونا چاہیے تھی کہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی 7 دن کے اندر مکمل ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کر سکتی، جہاں آئینی خلاف ورزی ہو وہاں سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا معاملہ دیکھ سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد اسد قیصر اور قاسم سوری کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں خارج کر دیں اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی کوئی بنیاد نہیں بنتی۔
دوسری جانب صدر عارف علوی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلیں واپس لے لیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں نظرثانی سے متعلق اپیلوں کا کیس نمٹا دیا۔