سپریم کورٹ کا صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم

0 79

سپریم کورٹ میںصحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔

قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر دو میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیےچلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا 184 تین کا ازخود نوٹس لینےکا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے، جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صحافیوں کی شکایت کو دیکھا ہی نہیں گیا تھا، سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، عبدالقیوم صدیقی بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا یا تو سرکار کہتی ہے کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا داد رسی کرتی، بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر یہ صرف محض کاغذ پر تحریر سمجھیں، یہ کیس دفن ہونے کے ساتھ تو بنیادی حقوق بھی دفن ہو گئے، میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟ مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا اسد طور کا کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے یا ابھی بھی چل رہا ہے؟ اٹارنی جنرل اسد طور کے کیس سے متعلق جامع اور مفصل رپورٹ دیں۔

چیف جسٹس ‏پاکستان نے کہا آپ سمجھتے ہیں کہ تنقید روک کرمیرا یا سپریم کورٹ کافائدہ کر رہے ہیں تو آپ نقصان کر رہے ہیں، صحافی اگر عدالتی فیصلوں پرتنقید کرتے ہیں تو کریں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے،کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ پر تنقید پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.