پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال پر اظہار تشویش
پاکستان میں ڈاکٹرز کی جانب سے غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس ادویات کے نسخوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، تازہ طبی تحقیقی میں ماہرین نے شہریوں کو سنگین خطرات سے خبردار کردیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے ایم آر کا مطلب یہ ہے کہ بیکٹیریا، وائرس اور پیراسائٹس میں ان ادویات سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جو اُن کے خاتمے کیلئے دی جاتی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹرز کی جانب سے مریضوں کو اندھا دھند اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کرانا ہے حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے اندھا دھند استعمال کے پیچھے وہ ڈاکٹرز ہیں جو مخصوص ادویات تجویز کرنے کیلئے فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ذاتی فوائد یا مراعات حاصل کرتے ہیں۔
اس صورت حال کی ایک وجہ اینٹی بائیوٹکس کی میڈیکل اسٹور پر کھلے عام فروخت بھی ہے، 90 فیصد پرائیویٹ ڈاکٹر ہفتہ وار بنیادوں پر فارماسیوٹیکل سیلز کے نمائندوں سے ملتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالغفور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تپ دق کے کیسز میں مزاحمت کی سطح MDR (ملٹی ڈرگ ریزسٹنس) سے بڑھ کر XDR (بڑے پیمانے پر ڈرگ ریزسٹنٹ) ہو گئی ہے۔
ٹائیفائیڈ کے کیسز میں بھی مزاحمت کی سطح XDR تک بڑھ گئی ہے، دنیا نے پاکستان کے صوبہ سندھ میں 2016 کے آخر میں XDR ٹائیفائیڈ کا پہلا کیس دیکھا تھا۔
ڈاکٹر سلمان نے اعتراف کیا کہ اے ایم آر پر قابو پانا ایک مشکل کام ہے، گزشتہ پانچ سے چھ سالوں میں اے ایم آر کی موجودگی کے شواہد حاصل کرنے کیلئے مزید کوششیں کی گئی ہیں۔