بھٹو کیس،سپریم کورٹ قصور وار ہے یا پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر؟ چیف جسٹس کا سوال
سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلاکر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کرتو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں کیا قانونی سوال پوچھا گیا ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگادی گئی، آپ محنت کریں اور بتائیں کے یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟ صدر مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے، باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہو گا۔
مخدوم علی خان نے کہا فوجداری کیسز میں جہاں سیاست شامل ہو انصاف نہ ہو انہیں درست ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ذوالفقار بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟
سپریم کورٹ قصور وار ہے، یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر؟ چیف جسٹس کا استفسار
کیس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جیو نیوز کے پروگرام جوابدہ کا کلپ بھی چلایا جس میں پروگرام کے میزبان ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کے 7 رکنی بینچ میں شامل ایک جج سے سوالات پوچھ رہے ہیں۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قصوروار ہے؟
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس پر سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔