2002ء میں قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے، چیف جسٹس

0 119

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ انہوں نے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزے کی استدعا کردی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل!آپ کا مؤقف کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیوں کہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔

دوران سماعت میربادشاہ قیصرانی کےخلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کردی۔ وکیل نے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائرکی جب62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن232 شامل ہوچکا اس لیے تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کررہا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟، جس پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی کسی کے عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کی مخالفت کرے، جس پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت میں مؤقف دیا کہ تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017 کو سپورٹ کر رہی ہیں۔

اس موقع پراٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 62،63 پھر کرسنادیا۔ اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر سنادی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت سے 62 اور 63 دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.