اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل سے متعلق 29 اگست، 12 ستمبر، 25ستمبر اور 3 اکتوبر کےنوٹیفکیشنز غیر قانونی قراردے دیئے۔
ٹرائل کورٹ کے جج کو جوڈیشل آرڈر کے بغیر کابینہ کی منظوری سے جاری جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اس کا ماضی پر بھی اطلاق نہیں ہو گا لہٰذا 29 اگست کے بعد ہونے والے ٹرائل کی جیل میں کی گئی تمام کارروائی کو کالعدم قراردیا جاتا ہے۔
غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یاان کیمرا ہوسکتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی کا 27 جون کا نوٹیفکیشن قانون کے مطابق درست ہے۔
فیصلے میں قرار دیا گیا کہ 13نومبرکو کابینہ منظوری کے بعدجیل ٹرائل نوٹیفکیشن کاماضی پراطلاق نہیں ہوگا، جیل ٹرائل ممکن ہے لیکن اس کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں۔
عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف بھی فیصلہ جاری کیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دے دی۔
اس سے قبل دوران سماعت رجسٹرار ہائی کورٹ نے عدالتی سوالات پر بینچ کو آگاہ کیا تھا کہ ٹرائل کورٹ کے جج کی تعیناتی کے پراسیس کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا اور ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائیکورٹ کو آگاہ بھی کیاتھا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا جیل ٹرائل کے لیے ٹرائل کورٹ جج کو وجوہات کے ساتھ واضح جوڈیشل آرڈر پاس کرنا ضروری ہے، کابینہ سے منظوری کا مرحلہ بعد میں آتا ہے، جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے درست قانونی طریقہ ا ختیار نہیں کیا گیا۔