جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پرمشتمل بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیا۔
عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات عدالت کے سامنے رکھیں جس کے مطابق جج کی تعیناتی کا عمل ہائیکورٹ سے شروع ہوا، سکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔
نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکربھی موجود نہیں،نہ ہی وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے، حکومت جیل ٹرائل کیلئے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔
جج نے دراصل کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، یہ سزائے موت یا عمرقید کا کیس ہے، اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ پٹیشنر کو بہرحال سکیورٹی تھریٹس تو ہیں۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا سائفرکیس کا ٹرائل23 اکتوبرکو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کاروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ جج نے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟ کیا اسپیشل رپورٹس ان کے ساتھ شیئرکی گئی تھیں؟