ملکی تاریخ کا بڑا مالیاتی اسکینڈل، پختونخوا کے سرکاری اکاؤنٹس سے 40 ارب روپے کی خرد برد کا انکشاف

0 6

خیبر پختونخوا کے سرکاری بینک اکاؤنٹس سے 40 ارب روپے سے زائد کی خوردبرد اور مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے اور خردبرد کی رقم مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اسکینڈل کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے, 50کے قریب بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے گیے ہیں جبکہ تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔

تحقیقات کے دوران مبینہ طورپر ایک حیران کن انکشاف ہوا کہ ایک ڈمپر ڈرائیور ممتاز کے اکاؤنٹس میں تقریباً ساڑھے چار ارب روپے موجود تھے، جنہیں فوری طور پر نیب نے منجمد کر دیا، مذکورہ ڈرائیور نے ایک فرضی کنٹسٹرکشن کمپنی بنا رکھی تھی۔ شواہد کے مطابق کل ملا کر اسکے اکاؤنٹس میں تقریباً 7 ارب روپے مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے جمع کرائے گئے۔

ابتدائی تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ضلع کے سرکاری اکاؤنٹس سے تقریباً ایک ہزار جعلی چیکس جاری کیے گئے جبکہ اب تک 50 مشتبہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ شواہد سے بااثر سیاسی اور اعلیٰ سرکاری شخصیات کی شمولیت کے واضح آثار ملے ہیں۔

ذرائع کے مطابق نیب کے چیئرمین کو اپر کوہستان میں بڑے مالی بے ضابطگیوں سے متعلق مصدقہ معلومات موصول ہوئیں، جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ اگرچہ ضلع کا سالانہ ترقیاتی بجٹ صرف 50کروڑ سے ڈیڑھ ارب روپے کے درمیان ہوتا ہے لیکن 2020 سے 2024کے درمیان پانچ برسوں میں 40 ارب روپےحکومتی بینک اکاؤنٹس سےجعلی طورپر نکلوائے گئے یہ رقم کئی دہائیوں کے ترقیاتی فنڈز سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ یہ جدید اور پیچیدہ مالیاتی فراڈ نیب کے تجربہ کار تفتیش کاروں کو بھی حیران کر گیا۔

صوبائی حکومت کے بینک اکاؤنٹ سیکورٹی اینڈ ڈپازٹ ورکس 10113سے اربوں روپے کنٹریکٹرز سیکورٹی کی آڑ میں نکلوائے گئے ۔یہ اکاؤنٹ جو ترقیاتی منصوبوںکے فنڈز، کنٹریکٹر سیکورٹیز اور ادائیگیوں کے لیے مخصوص تھا، اسے جعلی دستاویزات، بڑھا چڑھا کر بنائے گئے بلوں اور فرضی سیکورٹیز کے ذریعے استعمال کیا گیا۔ اب تک کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ تقریباً 40 ارب روپے منظم انداز میں نکلوائے گئے، جو خیبر پختونخوا کے مالیاتی نظام کی صریح خلاف ورزی ہے۔

یہ پیچیدہ اور کئی تہوں پر مشتمل فراڈ اپر کوہستان کے کمیونی کیشن اینڈ ورکس (C&W) ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کیا گیا، جس نے جعلی سیکورٹی ریفنڈز تیار کیے، ریکارڈ میں رد و بدل کیا، منصوبوں کی لاگت کو بڑھا چڑھا کر دکھایا، اور فرضی کنٹریکٹر سیکورٹیز کی منظوری دی ۔

یہ سب قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ ضلع کے اکاؤنٹس آفیسر (DAO) نے جنرل فنانشل رولز (GFR) اور ٹریژری رولز کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر مجاز ادائیگیاں منظور کیں۔ سرکاری اہلکاروں اور نجی ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے ایسے منصوبوں کے جعلی بلز جمع کرائے گئے جو کبھی بنے ہی نہیں۔

اسی دوران سرکاری بینک کے داسو اپر کوہستان برانچ کے کچھ ملازمین نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ضوابط اور اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری فنڈز نجی اکاؤنٹس میں منتقل کیے۔

ادھر اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ جیسے نگران ادارے بھی اس دھوکا دہی کو نہ روک سکے اور نہ ہی وقت پر اس کا پتا چلا سکے، جس سے احتسابی نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ثبوت محفوظ رکھنے کیلئے ضلع اکاؤنٹس آفس، C&W ڈیپارٹمنٹ، سرکاری بینک اور متعلقہ اکاؤنٹس کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ ڈمپر ڈرائیور کے اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ مزید 10 ارب روپے مالیت کے اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیئے گئے ہیں۔

پولیس کے ذریعے 30 افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں تاکہ ان سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ تحقیقات میں سرکاری بینک کے 14 افسران، DAO، C&W، اکاؤنٹنٹ جنرل آفس اور DG آڈٹ کے اہلکاروں کے کردار کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق اسکینڈل نہ صرف خیبر پختونخوا کے مالیاتی نظام کی سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ ممکنہ طور پر دانستہ طور پر کی گئی مالیاتی تباہ کاری کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ شواہد یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اس کارروائی میں صرف چند بدعنوان اہلکار ہی نہیں بلکہ صوبے کی اعلیٰ قیادت کے کچھ عناصر بھی شامل تھے، جنہوں نے مالیاتی قواعد کو نظر انداز کرنے کی دانستہ اجازت دی۔

نیب خیبر پختونخوا کی ٹیم نے کئی دن داسو کوہستان میں گزار کر تمام متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لیا۔ کرپشن کے اس بڑے حجم کو دیکھتے ہوئے نیب حکام نے اس معاملے کو ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں، مزید دھماکہ خیز انکشافات کی توقع ہے اور امکان ہے کہ صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران بھی اس اسکینڈل میں ملوث پائے جائیں گے۔ دستاویزات کے مطابق کوہستان میں سرکاری فنڈز کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور غیر قانونی نکاسی کے معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں، قومی احتساب بیورو (نیب) نے 50کے قریب بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے ہیں۔

تاہم اس حوالے سے بعض کنٹریکٹرز اکاؤنٹس ہولڈرز سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے فراڈ اورخورد برد کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو شائد کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ہم قانون کے مطابق کمپنیاں چلارہے ہیں اور حکومتی ٹھیکوں کے عوض رقوم ملیں جس میں غبن یا خورد برد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.