کراچی پورٹس کی اربوں کی اراضی پر قبضہ، سندھ حکومت، سیاستدان اور دیگر ملوث

0 4

کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی اربوں روپے مالیت کی تقریباً ایک تہائی اراضی یعنی 1448 ایکڑ پر تجاوزات ہیں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔

غیر قانونی قبضہ شدہ زمین پر حکمران سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض سیاست دانوں کی مبینہ آشیرباد سے تجاوزات قائم ہیں، جبکہ وفاق کی تقریباً 350 ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت قابض ہے۔

وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق ملک کے میری ٹائم سیکٹر کی اصلاح کے پروجیکٹ کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو جو معلومات فراہم کی گئی ہیں اس کے مطابق، ساحلی پٹی سے جڑی انتہائی مہنگی زمینیں تجاوزات اور تباہ حالی کا شکار ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کوئی معاشی سرگرمی نہیں ہو رہی۔

وزیر اعظم کی طرف سے منظور شدہ از سر نو بحالی (ری ویمپنگ) پلان میں سندھ رینجرز اور کچھ دیگر حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ وفاق کی ملکیت زمین کو بندرگاہوں کے کاروباری مقاصد کے استعمال میں لانے کیلئے واگزار کرائیں تاکہ ہائی رائز پورٹ آپریشنز (اسٹوریج / گودام بنانے / توسیعی مقاصد) کیلئے یا پھر ساحلی پٹی کو کاروباری یا تجارتی مرکز بنانے جیسے منصوبہ جات شروع کیے جا سکیں۔ زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ ایسے تنازعات بھی ہیں جو تفصیہ طلب ہیں۔

انکروچمنٹ کی وجہ سے، کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی کسٹمز کی جانب سے ضبط کیے جانے والے کنٹینروں کی وجہ سے تنگ پڑ چکی ہے۔ ان ضبط شدہ کنٹینروں کو بھی ٹھکانے لگایا جانا ہے۔

وزارت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کے پی ٹی کی کل اراضی تقریباً 8644 ایکڑ ہے اور اس کے تقریباً 1098 ایکڑ پر تجاوزات ہیں۔ ان تجاوزات کی مختلف اقسام ہیں جن میں

اول) عارضی چھپڑا ہوٹل اور دکانیں، کیبن، تھلے، عارضی مویشی فارمز، غیر قانونی پارکنگ

دوم) مستقل پرانے و نئے مکانات، دکانیں، مسجد، مدارس اور گودام شامل ہیں جبکہ

سوم) جو زمین لیز یا پر دی گئی ہے یا ا لاٹ کی گئی ہے اس پر توسیع کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں۔

کلفٹن میں کے پی ٹی کی 350 ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت کی جانب سے تجاوزات قائم ہیں۔ کے پی ٹی میں کچی آبادی (رہائشی علاقہ) تجاوزات کے لحاظ سے ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ 1993 میں اُس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق بابا جزیرے اور کاکا پیر کی زمین مخصوص رہائشی مقاصد کی خاطر الاٹ کی گئی تھی اور اس کے بعد سے سندھ حکومت نے غیر قانونی سندیں جاری کرکے مداخلت شروع کر دی ہے۔ جزیرہ اور کاکا پیر کی مخصوص زمین رہائشی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی تھیں اور اس کے بعد سے حکومت سندھ نے مجاز اتھارٹی یعنی کراچی پورٹ ٹرسٹ سے پیشگی اجازت لیے بغیر قانونی سندیں (ڈپٹی کمشنرز کی جاری کردہ سرکاری دستاویزات) جاری کرکے مداخلت شروع کر رکھی ہے۔

تقریباً 1098 ایکڑ پر قبضہ شدہ اراضی پر کئی دوسری کچی آبادیاں قائم کی گئی ہیں مثلاً سلطان آباد، مچھر کالونی، صالح آباد، ہجرت کالونی، یونس آباد، این ٹی آر کالونی، ڈاک کالونی، مجید کالونی وغیرہ۔ زمین واگزار کرانے کیلئے کے پی ٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن (322/2011) دائر کر رکھی ہے۔

لیکن کہا یہ جاتا ہے یہ زمین پر قابض افراد اور تجاوزات کیخلاف سندھ پولیس تعاون نہیں کر رہی اور کچھ دیگر ایسے قانونی معاملات بھی ہیں جن کی وجہ سے پورٹس کی سرکاری اراضی واگزار کرانے کی کوششیں سوُد مند ثابت نہیں ہو رہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کراچی پورٹ کیلئے پورٹ سکیورٹی فورس آرڈیننس 2002 میں منظور ہوا تھا جس میں مخصوص فرائض اور اختیارات کے حامل دو مجسٹریٹس کی تقرری کی دفعات تھیں۔

ذرائع کے مطابق، آرڈیننس کے سیکشن 14(2)(a) کے تحت ہاربر ایریاز کے احاطے میں ہونے والے جرائم کیلئے ایک مجسٹریٹ اور جبکہ اسی آرڈیننس کے سیکشن 14(2)(b) کے تحت دوسرا مجسٹریٹ بندرگاہ کے علاقہ جات بشمول تجاوزات وغیرہ کے معاملات دیکھنے کیلئے مقرر کیا جانا تھا لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ پورٹ حکام نے آج تک ایک بھی مجسٹریٹ مقرر نہیں کیا۔

پورٹ قاسم اتھارٹی کے معاملے میں دیکھیں تو جس اراضی پر تجاوزات قائم کیے گئے ہیں اس کا رقبہ 30 ایکڑ ہے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کا مجموعی رقبہ 13 ہزار 770 ایکڑ ہے۔ جن علاقوں پر تجاوزات قائم ہیں وہاں 7.84 ایکڑ پر گلشن بینظیر ٹاؤن شپ اسکیم (ناردرن زون) قائم ہے، 22 ایکڑ زمین پر گندھارا نسان آٹوموبائلز کے قریب (نارتھ ویسٹ انڈسٹریل زون) پر تجاوزات ہیں۔

دریں اثناء اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر سندھ حکومت اور کے پی ٹی کے درمیان زمین کے تنازع کے حوالے سے آگاہ نہیں ہیں، لہٰذا ان کیلئے فوری طور پر خصوصاً چھٹی کے دن کوئی وضاحتی بیان جاری کرنا ممکن نہیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.