لاہور ہائیکورٹ کا زیر زمین پانی کی سطح میں کمی پر اظہار تشویش

0 4

لاہور ہائیکورٹ نے زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے تدار ک کے لیے شہری ہارون فاروق و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس شاہد کریم نے زیر زمین پانی کی سطح میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی کمی سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے ،جب تک واٹر میٹر نہیں لگیں گے پانی ضائع ہوتا رہے گا۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ پی ڈی ایم اے والے کچھ نہیں کرتے صرف دفتروں میں بیٹھے ہیں ، جس پر پی ڈی ایم اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ آگاہی کے لیے اشتہار دے دیے ہیں اور ٹی وی پر چلوا دیا ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ایسی کمپین کے سخت خلاف ہوں یہ پیسے کا ضیاع ہے، واٹر کمیشن کے ممبر کو بلا کر ایک میٹنگ کریں اور پانی کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کی رپورٹ پیش کریں ، یہ سارے میٹنگ منٹس وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے رکھیں۔

سکولوں میں بسز کے حوالے سے ماحولیاتی کمیشن کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی جس پر عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وقتی طور پر سکولز بسز کے لیے کنٹریکٹرز ہائر کر سکتے ہیں، مستقل طور پر سکولز کو بسز خریدنا ہوں گی، رولز بنائے جائیں کہ ہر مالی سال میں سکولز بسز خریدیں ، سکولز رپورٹ جمع کروائیں گے کہ انہوں نے اس سال میں کتنی بسز خریدیں۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ آڈٹ رپورٹس دیکھیں تو اس میں پتہ چلتا ہے بڑے سکولز نے بہت منافع کمایا، سکول فیس کے معاملہ پر کیس کی سماعت کے دوران ہم نے انکا ڈیٹا دیکھا، محکمہ ٹرانسپورٹ کی رپورٹ کہاں ہے اور ای بسز کا کیا بنا، محکمہ ٹرانسپورٹ کو اپنے لیے گئے اقدامات کی رپورٹ جمع کروانا ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ٹو اور تھری وہیلرز کو الیکٹرک پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے، مجھے رپورٹس ملی ہیں کہ پی ایچ اے نے ریس کورس پارک میں اپنے دفتر کو توسیع دینے کے لیے پارک کو انکروچ کیا ہے۔

ممبر جوڈیشل کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ میں ناصر باغ گئی وہاں بھی ایک ریستوران کھلا ہوا ہے، عدالتی سٹے آرڈر کے مطابق پارکس کے اندر ریستوران نہیں بن سکتا، روڈا کو محکمہ جنگلات سے چھ ہزار ایکڑ اراضی ٹرانسفر ہوئی، 2022 سے اب تک صرف 192 ایکڑ اراضی پر ڈویلپمنٹ ہوئی ہے، یہاں جو بھی کام ہوا وہ انہوں نے پی ایچ اے سے کروایا ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ یہ حکومت پنجاب نے زمین روڈا کو کیوں ٹرانسفر کی ہے ؟ یہ آخر میں اس زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیز ہی بننا ہیں، میرا خیال ہے یہ زمین محکمہ جنگلات واپس لے اور اس پر خود کام کرے، بورڈ آف ریوینیو اور روڈا کو بھی نوٹس کر رہا ہوں کہ وہ آئندہ سماعت پر آئیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ چھ ہزار ایکڑ بہت بڑی جگہ ہے نظر آ رہا ہے اس پر انہوں نے کیا کرنا ہے، ٹولنٹن مارکیٹ پر کام چل رہا ہے یا نہیں؟

ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ پیٹس کی ایک مخصوص مارکیٹ ہونی چاہیے جس پر عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ زمین تو بہت ہے کہیں بھی انہیں خاص جگہ دے سکتے ہیں، آپ ایک مارکیٹ ڈویلپ کر کے لیز پر دے سکتے ہیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.