قدرتی حسن اور معدنیات سے مالا مال پارا چنار کے مسئلےکا کیا حل ہے؟

0 4

قدرتی حسن اور معدنیات سے مالا مال ضلع کرم کےصدر مقام پاراچنار، بوشہرہ سمیت اپر کرم اور لوئر کرم کے 100 سے زائد دیہات کے 4 سے 5 لاکھ افراد ساڑھے 3 ماہ سے محصور ہیں، پشاور سے آنے والی سڑک بند ہے جب کہ افغان سرحد پر دراندازی کے پے درپے واقعات نے یہاں کا امن تباہ کردیا ہے۔

ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار کے خوش ذائقہ کرمی چاول، لذیذ مونگ پھلی کے علاوہ سرخ لوبیا اور اخروٹ اپنی لذت کی وجہ سے بے مثال ہیں۔ یہاں کے خوبصورت دل نشین سیاحتی مقامات اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

یوں تواکادکا واقعات کی تاریخ خاصی پرانی ہے لیکن 21 نومبر 2024 کو پشاور سے پارا چنار آنے والے 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر بگن کے قریب فائرنگ میں 5 بچوں اور 8 خواتین سمیت 50 سے زائد لوگ قتل کردیےگئےتھے۔ یہ ضلع کرم کی تاریخ کا سیاہ دن تھا جس کے بعد اس خوبصورت علاقے کے امن کو توجیسے نظرہی لگ گئی۔

پاراچنار میں کسی کا بھائی امن کے لیے قربانی دیتے دیتے دنیا سے چلا گیا توکسی نے گھر کے سربراہ کو کھودیا،کوئی بیٹے کی جدائی برداشت کر رہا ہے توکوئی رشتہ دارکی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے خانہ بدوش خاندان کی چاندنی نامی تین سالہ بچی سے بھی باپ کا سایہ چھن گیا۔

حکومت نے فریقین کے عمائدین کے ساتھ 14 نکات پر مشتمل امن معاہدہ تحریر کیا ہے جس میں قبائل سے اسلحہ جمع کرنا بھی شامل ہے۔

پارا چنار کے قبائلی رہنما حاجی عابد حسین کا کہنا ہےکہ ایک علاقےکی جب 365 کلومیٹر سرحدکسی اور ملک سے ملتی ہو تو وہاں پہ تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں، آنا جانا ہوتا ہے، وہاں پہ جو چیزیں ارزاں ہوں یہاں پہ لائی جاتی ہیں اور وہاں پہ جو ضرورت کی چیز یں ہوں یہاں سے پہنچائی جاتی ہیں، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ علاقہ خوشحال ہوتا لیکن یہی ہمارے بدنصیبی اور جنگ و جدل کا بھی سبب بنا ہوا ہے۔

طوری بنگش قبائل کے رہنما جلال بنگش کا کہنا ہےکہ ضلع کرم میں اصل جو مسئلہ ہے وہ ہمارا زمینی تنازع ہے جو بدقسمتی سے سالوں سے حل نہیں ہو رہا اور ساتھ ہی ضلع کرم کی جو جغرافیائی اہمیت ہے وہ بھی اپنی جگہ اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہی وجہ ہےکہ یہاں انٹرنیشنل ایشوز بھی اثر انداز ہوتے ہیں، پھر مقامی ٹی ٹی پی خوارج بھی بیچ میں آجاتے ہیں اور پھر فرقہ ورانہ روپ ڈھال لیتے ہیں، یہی وجہ ہےکہ ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے۔

جلال بنگش نے کہا کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حالیہ جو امن معاہدہ کوہاٹ میں ہوچکا ہے اس پہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور ریاست کو چاہیےکہ وہ ذمہ دارانہ اور سنجیدہ کردار ادا کرے تاکہ ہمارے جو زمینی تنازعات ہیں، ہماری سڑکوں کو محفوظ بنانا ہے اور بھی جو مسائل ہیں وہ حل ہوجائیں تو امید ہے کہ ان شاءاللہ ضلع کرم میں ایک دیرپا اور پائیدار امن قائم ہو جائےگا۔

کچھ ذمہ دار عمائدین فریقین کی جانب سےکی گئی اپنی اپنی غلطیوں کے ازالے اور فراخدلی کے ساتھ درگزر کو ہی مسئلےکا حل سمجھتے ہیں۔

قبائلی رہنما پروفیسر جمیل کاظمی کا کہنا ہےکہ وادی کرم کے افراد اٹھ کھڑے ہوجائیں اور اپنوں سے گلے ملیں، اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔

ضلع کرم میں بے امنی کی سب سے بڑی قیمت عام شہری ادا کر رہے ہیں، راستوں کی بندش سے بازار، دکانیں خالی ہیں اور اسپتالوں میں مریض بڑھتے جا رہےہیں۔

شہری کہتےہیں کہ حکومت امن معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنائے تاکہ ان کا علاقہ پھر سے پیار اور محبت کا گہوارہ بن سکے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.