آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟ عدالت، کسی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، وکیل وزارت دفاع

0 2

سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل میں آئینی بینچ کے جج نے وزارت دفاع کے وکیل سے سوال کیا آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کسی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ اور رولز میں فیئرٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا میں کسی فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن 2 ون، ڈی ون کو فیئر ٹرائل کے منافی قرار دیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی اور کہا تھا کہ قانونی سیکشنز پر لارجربینچز کے فیصلوں کا پابند ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا 21 ویں ترمیم میں فیصلے کی اکثریت کیا تھی؟ اس پر وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا 21 ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا ہے اور 21 ویں ترمیم کواکثریتی ججز نے اپنے اپنے انداز میں برقرار رکھا۔

وکیل وزارت دفاع نے دلائل دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دی کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پرفیڈریشن کو مکمل سناہی نہیں گیا، اس پر جسٹس مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر اٹارنی جنرل کو کیا 27 اے کا نوٹس دیا گیا تھا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی کےنوٹ سے تو لگتاہے اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بینچ نے اٹارنی جنرل کوکہا تھا دلائل آرمی ایکٹ کی شقوں کی بجائے 9 اور 10مئی واقعات پر رکھیں، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ تو عجیب بات ہے، پہلےکہاگیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقوں کو کالعدم بھی قرار دےدیا گیا۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ احتجاج اور حملے میں فرق ہے، اس پر جسٹس امین الدین نے کہا 21 جولائی 2023 کےآرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی ہے، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلے میں 9 مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی مگر سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہیں، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا، اس پر جسٹس جمال نےکہا کہ 21 ویں ترمیم میں کہا گیا سیاسی جماعتوں کےکیسز آرمی کورٹ میں نہیں چلیں گے۔

جسٹس جمال نے سوال کیا کہ کیا 21 ویں ترمیم کے بغیر دہشتگردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا تھا، اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا 21 ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔

جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے، یہاں کور کمانڈر لاہور کا گھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت پر حملے ہوئے، جرم سے انکار نہیں ہے۔

جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے، پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی؟ اس موقع پر سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا، اسے بھی شامل کریں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت پیر کے دن تک ملتوی کردی۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.