قلیل مدتی فوائد پر طویل مدتی خوشحالی کو ترجیح دی جائے،آئی ایم ایف
معاشی بحالی کے آثار واضح نہیں ،مہنگائی کو سنگل ہندسوں تک محدود کر دیا گیا، حکومتی قرضے لینے کی لاگت 25 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد ہو گئی، ترسیلات زر ماہانہ 3 بلین امریکی ڈالر پر آ رہی ہیں اور تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کنٹرول میں ہیں۔
آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ نے کثیرالجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان سے فنڈز وصولی کے راستے کھول دیے اور اسٹاک مارکیٹ میں انڈیکس ایک لاکھ پوائنٹس کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ امید کی ابتدائی نشانیاں ہیں لیکن اصل چیلنج آگے ہے۔ ہم اقتصادی تبدیلی کے دہانے پر کھڑے ہیں ، پاکستان کی رفتار کو نئی شکل دینے کا ایک نادر موقع لیکن یہ لمحہ وژن اور نظم و ضبط کا تقاضا کرتا ہے۔
کھپت کے 3 فیصد کی نمو سے آگے بڑھنے سے تجارتی عدم توازن دوبارہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے وقت آ گیا ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور جرات مندانہ سرمایہ کاری کا 5 سے 6 فیصد نمو کی طرف ایک پائیدار راستہ متعین کیا جائے۔
یہ صرف ایک حکومتی کوشش نہیں بلکہ یہ پاکستان کی کاروباری اشرافیہ اور پالیسی سازوں کے لیے یکساں اقدامات کا متقاضی ہے، ہم مل کر ایک ایسا پاکستان بنا سکتے ہیں جہاں جدت، سرمایہ کاری اور ترقی کو آگے بڑھائیں۔
اگرچہ توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا اور آئی پی پی کے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت ضروری ہے، ملک کا مستقبل ان شعبوں میں جہاں پاکستان کو قدرتی برتری حاصل ہے غیر ملکی اور ملکی دونوں طرح کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر منحصر ہے۔
ایف ڈی آئی پر توجہ بروقت ہے، جس میں SIFC رکاوٹوں ،سرمایہ کاروں کے خدشات کو دور اور اسٹیک ہولڈرز کو متحد کیا جائے ،پاکستان کو ایسی سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہیے جو قومی ترجیحات کے مطابق ہوں،یعنی ہر ایک ڈالر کی سرمایہ کاری سے قابل ذکر فوائد حاصل ہونے چاہئیں، ملازمتوں کی تخلیق، ٹیکس آمدنی، برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی اور صنعتوں کو مضبوط کرنا شامل ہو۔
ہمارے مقامی کاروباری افراد اور صنعت کار غیر ملکی سرمایہ کاروں سے کم قابل نہیں ،ملکی سرمائے کو متحرک کرکے ہم بین الاقوامی فنڈز پر بے جا انحصار کیے بغیر ترقی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔بحیثیت قوم ہمیں اپنے وسائل کو ایسے منصوبوں میں استعمال کرنا چاہیے جو پاکستان کے معاشی تشخص کو نئے سرے سے واضح کریں، مین لائن ریلوے کو ایک جدید ٹرانسپورٹ کوریڈور میں تبدیل کرنے، ملک بھر میں آئی ٹی پارکس اور ڈیجیٹل یونیورسٹیاں قائم کرنے، درآمدی انحصار کو کم کرنے کے لیے جدید ترین پیٹرو کیمیکل پلانٹس کی تعمیر شامل ہو۔
ہمارے پاس ہنر، وسائل اور عزم ہے، ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ قلیل مدتی فوائد پر طویل مدتی خوشحالی کو ترجیح دی جائے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایک بہتر پاکستان سرٹیفکیٹ (BPC) کی پیشکش کی جائے۔یہ پاکستان کے لیے ایک اہم دہائی ہے ،پالیسی سازوں کو مالیاتی اور اقتصادی اصلاحات کو برقرار رکھنا چاہیے۔اس خواب کو حقیقت بننے کے لیے، ہمیں دیانتداری، مخلصی اور مشترکہ وژن کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ دنیا دیکھ رہی ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی آنے والی نسلیں ہم پر بھروسہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنی امنگوں کے مطابق ایک قوم کی تعمیر کریں۔