سینیٹ کمیٹی؛ ملکی ضرورت کا سارا سونا اسمگلنگ کے ذریعے آنے کا انکشاف

سونے کا شمار لگڑری آئٹم میں ہوتا ہے اس لئے وقتی طور پر اس پر پابندی برقرار رہے گی، وفاقی وزیر کامرس

0 533

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ملکی ضرورت کا تمام سونا مختلف ممالک سے اسمگل ہوکر آتا ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس کا اجلاس ہوا۔سس میں وفاقی وزیر برائے کامرس سید نوید قمر، مرزا محمد آفریدی، فدا محمد، سلیم مانڈوی والا، دنیش کمار، محمد عبدالقادر، پلوشہ محمد زئی خان، انوار الحق کاکڑ اور وزارت کے سینیئر حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستانی مارکیٹ میں تقریباً 80 ٹن سونے کی کھپت ہے اور یہ تمام سونا غیر قانونی ذریعے سے اسمگل ہو کر پاکستان میں آتا ہے، اسٹیٹ بینک سونے کی درآمد کے لیے زرمبادلہ کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں قانونی طریقے سے سونے کی درآمد کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر حکومت اس کی اجازت نہیں بھی دیتی تب بھی سونا تو غیر قانونی طریقے سے اسمگل ہو کر آ ہی رہا ہے تو کیوں نہ اسے قانونی طریقے سے درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ جس سے ملک کو ٹیکس کی مد میں فائدہ بھی ہوگا۔

وفاقی وزیر برائے کامرس سید نوید قمر نے ایک مہینے میں سونے کی درآمد کے معاملے کو یکسو کرتے ہوئے حل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ سونے کا شمار لگڑری آئٹم میں ہوتا ہے اس لئے وقتی طور پر اس پر پابندی برقرار رہے گی۔ موجودہ تجارتی عدم توازن اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔

اجلاس میں درآمد پر پابندی کی وجہ سے بندرگاہ پر پھنسے کنٹینرز کے حوالے سے بھی غور کیا گیا۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ہم جلد از جلد پھنسے کنٹینرز کے مالکان کے ساتھ ٹیکس معاملات طے کرتے ہوئے انہیں ریلیز کر دیں گے۔

سینیٹر فدا محمد نے گڑ اور چینی کو ایک ہی کیٹیگری میں رکھتے ہوئے دونوں پرایکسپورٹ پابندی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ سید نوید قمر نے کمیٹی کو بتایا کہ شوگر پالیسی بورڈ میں اس معاملے کو دیکھا جائیگا۔ ملک میں چینی کی دستیابی کو دیکھتے ہوئے ایکسپورٹ کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ سیکریٹری کامرس نے سینیٹر فدا محمد کے موقف سے اتفاق کیا کہ گڑ اور چینی کے معاملے سے الگ الگ نمٹا جانا چاہیے۔

کمیٹی کو مقامی جپسم انڈسٹری کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے معاملے پر بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ مقامی انڈسٹری کے تحفظ کیلئے جپسم کی امپورٹ پر 26 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

جپسم انڈسٹری کے نمائندگان کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ اور چین سے جپسم کی تیار مصنوعات میں استعمال ہونے والا پیپر امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ خاص قسم کا پیپر پاکستان میں تیار نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس کی امپورٹ پر بھاری ٹیکس لگایا گیا ہے۔

آئرن راڈز کی قیمت دگنی ہونے پر سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ پاکستان میں اسٹیل کی مقامی پیداوار تقریباً 70 سے 80 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ اسٹیل مافیا نے درآمد پر بھاری ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کی شکل میں ٹیکسز لگوا لیے ہیں اور ساتھ ہی ملک میں مقامی اسٹیل کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

سینیٹر عبدالقادر کا موقف تھا کہ ملک میں دس سے بیس لاکھ ٹن اسٹیل درآمد کی اجازت دی جانی چاہیے۔ اس سے قیمتوں پر مثبت اثر پڑے گا اور مارکیٹ میں مقابلے کی فضا قائم ہوگی۔ خاص طور پر ایران سے بارٹر تجارت کے ذریعے سستا اسٹیل درآمد کرنے کے حوالے سے پالیسی بنائی جانی چاہیے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.