زرعی سیکٹر کی گروتھ میں 1.1 فیصد تک نمایاں کمی
کراچی:ملک میں رواں مالی سال کی دوسری سہہ ماہی کے دوران زرعی سیکٹر کی گروتھ میں 1.1 فیصد کی نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 6.1 فیصد تھی.
اس کمی کی بڑی وجہ کپاس کی پیداوار میں 31 اور مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد کی بڑی کمی ہے.
سندھ ایگریکلچر چیمبر کے صدر میران محمد شاہ نے کہا کہ یہ کمی میرے لیے حیران کن نہیں ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نمی کی سطح میں کمی آئی ہے، جس سے کپاس کی پیداوار دو ضلعوں سانگھڑ اور نوابشاہ تک محدود ہوگئی ہے.
امکان ہے کہ گندم کی فصل کا بھی یہی حال ہوگا، حکومت کی جانب سے امدادی قیمت مقرر نہ کرنا اور مہنگے بیج اور کھاد نے کسان کو مشکل میں ڈال دیا ہے، اوپر سے خشک سالی بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے.
اگر مناسب بارشیں نہ ہوئیں تو پاکستان کو تمام بڑی شرعی اجناس درآمد کرنا پڑ سکتی ہیں، جس سے ملک میں غذائی تحفظ کا شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے.
پنجاب کے ایک کسان حامد ملک نے بتایا کہ چاول کی پیداوار کم ہو کر 9.5 مین ٹن رہ گئی ہے، جو گزشتہ سال 9.8 ملین ٹن تھی، اس کے برعکس مکئی اور گنے کی پیداوار میں 3 فیصد اضافہ ہوا ہے، باغبانی اور لائیو اسٹاک سیکٹر میں بھی اضافہ دیکھا گیا.
لیکن کپاس اور مکئی جیسی بڑی اجناس کی پیداوار میں بڑی کمی کی وجہ سے مجموعی طور پر زرعی معیشت گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے.
سندھ آباد گار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا کہ جون اور جولائی میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ کپاس کی پیداوار کم رہے گی، اور اب اس کی تصدیق ہورہی ہے، چاول کی پیداوار بھی کم رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے، جبکہ چینی کی پیداوار بھی کم رہے گی، گندم کی ابتدائی پیداوار بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں کم بتائی جارہی ہے.
کنکیو ایگری سروسز کے صدر محمد علی اقبال نے کہا کہ بڑھتی ہوئی ان پٹ لاگت کے باجود فصلوں میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، ماحولیاتی تبدیلی اور لیکویڈیٹی کے مسائل بھی کسان کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔