ڈائریکٹوریٹ کسٹمز پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ساؤتھ نے جعلی کمپنی کے ذریعے کروڑوں روپے مالیت کے ٹیکس چوری کو بے نقاب کرتے ہوئے میسرز سلیمان انڈسٹریز کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کاروائی کا آغاز کردیا.
ڈائریکٹر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کسٹمز ساوتھ شیراز احمد کے مطابق پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی جانب سے بعد از کلئیرنس آڈٹ کے دوران تحقیقات مذکورہ کمپنی کے کاروباری کاموں کی چھان بین کی گئی تو کمپنی کی مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی ہوئی جس پر ڈی جی پی سی اے ڈاکٹر ذوالفقار علی چوہدری نے کمپنی کی جانب سے مینوفیکچرنگ اسٹیٹس کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کی ہدایات جاری کی گئیں.
بعدازاں محکمہ کسٹمز، سیلزٹیکس اور انکم ٹیکس کے دستیاب اعداد و شمار کے تناظر میں آڈٹ ٹیم کو ابتدائی جانچ کے دوران ہی متعدد تضادات نشاندہی ہوئی، ان بے ضابطگیوں پر جب کمپنی کے مینوفیکچرنگ سائٹ کا فزیکلی معائنہ کیا گیا تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ رجسٹرڈ پتے پر دیے گئے کوئی بھی مشینری موجود نہیں اور کمپنی کے پاس مینوفیکچرنگ کی کوئی بھی مطلوبہ سہولت میسر نہیں تھی.
لیکن کمپنی کی جانب سے درآمدی مرحلے پر کسٹم ڈیوٹی و دیگر ٹیکس کی چھوٹ اور رعایتی ٹیکس کی شرحوں کا دعویٰ کرنے کے لیے اپنی مینوفیکچرنگ اسٹیٹس کا غلط استعمال کیا جارہا تھا.
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مذکورہ کمپنی درآمد شدہ ایمبرائیڈری مشینوں سمیت رعایتی ٹیرف کی حامل دیگر اشیاکی مقامی فروخت میں بھی ملوث پائی گئی کمپنی کی جانب سے درآمد ہونیوالی اشیا کا حجم بھی اس کی مالی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جس نے سے پی سی اے ٹیم کو کمپنی کی ممکنہ منی لانڈرنگ کی سرگرمیوں کی تحقیقات شروع کرنے پر مجبور کیا.
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ کمپنی کی بے قاعدگیوں سے درآمدات کی غیر قانونی فنانسنگ ہوئی اور 135 درآمدی گڈز ڈیکلیریشنز پر 2ارب 40کروڑ مالیت کی ایمبرائیڈری مشینیں درآمد کرکے 21 کروڑ 80 لاکھ روپے کی ڈیوٹی وٹیکسوں کی چوری کی گئی.
کمپنی کے معائنہ سے پتہ چلا کہ میسرز سلیمان انڈسٹریز نے کبھی بھی اپنی دستاویزات میں دیے گئے مینوفیکچرنگ پتے پر کام نہیں کیا۔پی سی اے ساو ¿تھ نے کسٹمز ایکٹ مجریہ 1969 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے، جبکہ بوگس ادارے کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ مجریہ 2010 کے تحت تجارت پر مبنی مالی جرائم کے لیے ممکنہ الزامات کا بھی سامنا ہے۔