پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات جنوبی ایشیا میں گیم چینجر، دوطرفہ تجارت 1 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی

0 19

پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہونے پر دوطرفہ تجارت 1 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

پاکستان نے 15 سال بعد 26,000 میٹرک ٹن چاول کی پہلی براہ راست کھیپ بنگلہ دیش کو بھیجی ہے جبکہ مزید 24,000 میٹرک ٹن چاول جلد روانہ کئے جائیں گے، اس اقدام سے براہ راست شپنگ روٹس اور کارگو پروازوں پر بھی بات چیت ہو رہی ہے، جبکہ پاکستانی کاروباری وفود گزشتہ دو ماہ سے ڈھاکہ کے دورے کر رہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارت پہلے ہی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں مزید اضافے کی بڑی صلاحیت موجود ہے، پاکستانی کپاس، چینی اور ٹیکسٹائل کی مانگ بڑھ رہی ہے جبکہ بنگلہ دیشی پٹسن، فارما اور گارمنٹس کی مانگ پاکستان میں بڑھ رہی ہے، براہ راست پروازیں اور آن لائن ویزے اس تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔

نئی بنگلہ دیشی قیادت کا پاکستان کی طرف جھکاؤ بھی بڑھ رہا ہے، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور SIFC کے سٹریٹجک ویژن سے ہونے والی تبدیلی سے نئی اقتصادی راہیں کھل رہی ہیں اور خطے میں ہندوستان کا اثر بھی کم ہورہا ہے۔

پاکستان کی معیشت دباؤ میں ہے اس کے باوجود معیاری خام مال اور مصنوعات کی فراہمی میں بنگلہ دیش کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستانی برآمد کنندگان کو بنگلہ دیش کی ابھرتی ہوئی منڈی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، خاص طور پر جب نئی بنگلہ دیشی حکومت قابل اعتماد تجارتی شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔

پاکستان چین کے ساتھ ملکر اس سہ فریقی تعاون سے ہندوستان کے غلبہ کیلئے ایک دھچکا ثابت ہوسکتا ہے، گوادر پورٹ، سی پیک کی توسیع اور دفاعی تعلقات بھی جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست کو نئی شکل دے رہے ہیں اور پاکستان کے کردار کو مستحکم کرتے ہوئے بھارت کے عزائم کا مقابلہ کر رہے ہیں، اس طرح بھارتی گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس سب کے باوجود، فی الحال آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کے بارے میں سوچنا شاید زیادہ پرجوش فیصلہ ہوگا، اس سمت میں کوششیں 2002ء سے جاری ہیں لیکن بنگلہ دیش پاکستانی منڈیوں تک آزاد رسائی کا خواہاں ہے کیونکہ وہ خود کو ترقی پذیر ممالک (LDC) کی فہرست میں شامل کرتا ہے، یہ درجہ 2024ء میں ختم ہونا تھا لیکن اب 2026ء تک برقرار رہے گا۔

دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کو ان پیچیدگیوں کو دانشمندی سے سنبھالنا ہوگا اور ایک دور اندیش اور مستقبل پر مرکوز حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ اس نئے تجارتی تعلق سے بہترین فائدہ حاصل کیا جا سکے، اگر دونوں ملک دانشمندی سے فیصلے کریں تو وہ نہ صرف اپنی معیشتوں کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ خطے کی مجموعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.