وزیرخزانہ کا اسٹیٹ بینک کو کرپٹو کرنسی متعارف کرانے کا مشورہ

0 15

وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے پاکستان کے بینکنگ سسٹم کی ڈیجیٹلائزیشن پر زور دیتے ہوئے کرپٹو کرنسی کو متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا ہے.

انھوں نے کہا کہ ملک میں ڈیجیٹل بینکنگ تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس لیے اسٹیٹ بینک ملک میں کرپٹو کرنسی متعارف کرانے پر کھلے دل سے غور کرے، جبکہ غیر رسمی مارکیٹ میں پہلے سے ہی کرپٹو کرنسی کا استعمال ہورہا ہے.

انھوں نے ڈیجیٹل اثاثوں اور اے آئی کیلیے ایک ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا، ان خیالات کا اظہار انھوں نے پیر کو پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے تحت پہلی پاکستان بینکنگ سمٹ 2025 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا اگلا مشن مارچ کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچے گا جو ابتدائی 6 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لے گا جبکہ ایک ٹیکنیکل مشن پاکستان پہنچ چکا ہے جس سے لچکدار کلائمیٹ فنانسنگ پر بات ہوگی۔

یہ مشن 3 سے 3 دن پاکستان میں قیام کرے گا، انھوں نے کہا کہ پی آئی اے رواں سال انشاء اللہ پرائیویٹائز ہوجائے گی، وزیرِ خزانہ نے کہا کہ حکومت جاری اصلاحات پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے گی، ایف بی آر اصلاحات کو اسی جذبے کے ساتھ آگے لے کر جائیں گے.

انھوں نے کہا کہ تمام ابھرتی منڈیاں مختلف ہیں، ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنا ہوگا، کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہماری دعائیں تھیں، برآمدات میں معدنیات کی کافی صلاحیت ہے، اگر ٹیکس کی بنیاد کو وسیع اور گہرا نہیں کریں گے تو پائیدار ترقی ممکن نہیں ہے، ریونیو لیکیجز اور کرپشن کو ختم کرنا ہے۔

جس کے ذریعے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں گے۔ ہم ایکسپورٹس کو بڑھاوا دیں گے اور سرحدوں کی کڑی نگرانی جاری رکھیں گے۔

ریجنل کنیکٹیویٹی میں آذربائیجان اور دیگر ممالک سے آگے جارہے ہیں، ملک سے پہلی بار شوگر اسمگل نہیں بلکہ برآمد کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ مقامی بینکنگ سیکٹر کسان کارڈ اور سولر اسکیموں پر بہتر کام کررہا ہے، بھارت سے تجارت کا معاملہ جیو پولیٹیکل ہے جبکہ آذربائیجان اور ترکیہ کے ساتھ تجارتی روابط بڑھ رہے ہیں۔

قبل ازیں بینکنگ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ پاکستان کے میکرو اکنامک استحکام میں اضافہ ہوا، اندرونی و بیرونی کھاتوں میں بہتری آئی ہے۔

مالی سال 25 کے ابتدائی 7ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ ہوا ہے۔ افراطِ زر اور شرح سود میں کمی ہوئی ہے، ہم اسٹرکچرل اصلاحات کر رہے ہیں۔ ایف بی آر کو مکمل ڈیجیٹلائز کررہے ہیں۔ فیس لیس اسیسمنٹ کے باعث کرپشن میں 90 فیصد تک کمی ہوئی۔

زرعی انکم ٹیکس اگر اسٹرکچرل ریفارم نہیں تو کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ صوبائی وزرائے خزانہ کے ساتھ زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے۔

پالیسی کی سطح پر ایڈوائزری بورڈ کا قیام عمل میں لائیں گے۔ آئندہ بجٹ سے متعلق سنسنی کو کم کرنے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 3 ڈسکوز کی نجکاری شروع ہونے کو ہے۔ پبلک فنانس کیلیے حکومتی اخراجات کم کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔

ہم رائٹ سائزنگ کیلیے”کیوں” سے زیادہ "کیسے” پر بات کررہے ہیں۔ ہم اس کے عملدرآمد کا جائزہ لیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پینشن سے متعلق اصلاحات کیں اور نقصانات کو کم کیا۔ آبادی اور موسمیاتی تبدیلی پر توجہ دیے بغیر پائیدار معاشی ترقی نہیں ہوگی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے 10سالہ شراکتداری میں 6 تھیمز دی ہیں، جن میں 4 موسمیاتی تبدیلی پر اور 2 مالیات پر کام ہورہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بینکس سمیڈا کے ساتھ مل کر استعداد کار بڑھانے پر کام کریں، وزیر اعظم سے سمیڈا کو بند کرنے کو کہا لیکن وزیرِ اعظم نہیں مانے، گرین فنانسنگ میں ہم پیچھے ہیں، ہمیں اس پر پہلے توجہ دینی چاہیے تھی، انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے انفلوز سے متعلق کامیابی کی داستان ہے۔

ایس ایم ایز کے حوالے سے درمیانے درجے کے بینک اچھا کام کر رہے ہیں۔ بڑے بینکوں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ بھی ایس ایم ایز کیلیے فنانسنگ کریں، وزارتِ خزانہ اس حوالے سے سپورٹ کرے گی.

ایف بی آر میں ڈیجیٹلائیزیشن سے انسانی مداخلت کم ہوئی لیکن عملی معاملات کومکمل ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایمرجنگ مارکیٹ نے گذشتہ 25سال بہترین انداز میں گزارے ہیں، سب کا اتفاق ہے کہ ہمارے جو ہاتھ میں ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.

بیشتر وزرائے خزانہ کی توجہ پیداواری نمو پر مبنی رہی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کو پالیسیاں دے تاکہ نجی شعبہ کاروبار چلائے۔

نج کاری کا عمل اور مالیاتی انتظام کی بہتری ہونا ضروری ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور میں سعودی عرب میں عالمی کانفرنس میں تھے۔ میں نے سیکھا کہ ابھرتی منڈیوں نے 2025 میں بہتری کے ساتھ قدم رکھا ہے۔ ابھرتی منڈیوں کے وزرائے خزانہ نے ڈی-ریگولیشن کے فروغ اور سرخ فیتے کے خاتمے کی بات کی۔

ابھرتی معیشتوں کے مشترکہ تعاون اور تکنیکی معاونت کی بات ہوئی۔ عالمی تجارت سے زیادہ خطے کی تجارت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کو نج کاری کے لیے دوبارہ مارکیٹ میں لائیں گے۔

پاکستان کا چیلنج انفرادی نوعیت کا نہیں ہے باقی ابھرتی معیشتوں کو بھی یہ چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمیں برآمداتی معاشی پیداوار کی ضرورت ہے۔ برآمدات میں محض ٹیکسٹائل پر انحصار نہیں کرنا بلکہ تمام شعبوں کو برآمدات میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

ہمیں پروڈکٹیوٹی چاہیے جس مطلب ہے کہ ہمیں عالمی مسابقت حاصل کرنا ہوگی۔ مقامی سرمایہ کاری آئے گی تو ایف ڈی آئی آئے گی۔ عالمی کیپٹل مارکیٹس کی اگر بات کی جائے تو ریٹنگ ایجنسیوں سے بات ہوئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سنگل ڈی کیٹگری میں آ جائیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.