پاکستانی قوم پر موروثی نااہل خاندان پھر سے مسلط۔۔۔۔ دانشمدی کا تقاضا کیا ہے

قومی سرمائے کو چند اشرافیہ خاندان اپنے باپ کی وراثت سمجھتے ہوئے اپنی عیاشی میں لٹاتے آئے ہیں، جبکہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے رہے ہیں۔ موروثی سیاست کا خاتمہ اور پاکستانی عوام کی خوشحالی لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان قوم کو یہ جان لینا چاہیئے کہ سال ہا سال سے اقتدار پر براجمان رہ کر عوام کی جان اور مال کو بازیچہ اطفال بنا کر فقط اپنے پیٹ کیلئے فکر مند رہنے والے نام نہاد نمائندے دوبارہ عوامی ووٹ سے اقتدار میں آکر پاکستان کو مزید کنگال کرنے کیلئے پر و بال بنا رہے ہیں، جنہیں ووٹ دینا ملک اور قوم کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہے اور خیانت کرنا گناہ کبیرہ ہے، جسکی سزا سنگین ہے

0 314

تحریر: محمد حسن جمالی

ہر عاقل سمجھتا ہے کہ مریض کا علاج کرانے سے پہلے مرض کی تشخیص کرانا ضروری ہے۔ اگر مرض تشخیص کئے بغیر علاج کے لئے اقدامات کریں تو نہ فقط مریض بہبودی نہیں پاتا ہے بلکہ یہ کام حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستانی قوم بہت ساری بدبختیوں کا شکار ہے۔ 22 کروڑ سے زیادہ تعداد پر مشتمل پاکستانی عوام اپنے حال اور مستقبل سے نالاں ہیں۔ عرصہ دراز سے جس چیز نے پاکستانی قوم کی کمر توڑ رکھی ہے، وہ ناانصافی ہے، جس کے سبب اس ملک میں امیر امیر تر اور غریب لوگ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ کمزور طبقوں کا کوئی پرسان حال نہیں، اقلیتی گروہ کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، حکومتی کالے قانون غریب عوام کے ساتھ ہی مخصوص ہیں، بے شمار محب وطن بے گناہ شہریوں کو گولیوں سے خاک و خون میں ابدی نیند سلانے والے خطرناک دہشتگردوں کو تو قومی اسمبلی میں جگہ ملی ہوئی ہے، لیکن ملک کے تعلیم یافتہ باصلاحیت جوان بے روزگار پھر رہے ہیں۔

پاکستان اسلام کے نام پر اس لئے نہیں بنا تھا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ ناانصافی کی دلدل میں دھنسے رہیں، بلکہ اسلام کے نام پر جداگانہ مملکت تشکیل دینے کا فلسفہ ہی یہ تھا کہ پاکستانی قوم کو انصاف ملے، پاکستان کے باسیوں کو اسلامی زرین قوانین کے زیر سایہ امن، محبت، اخوت اور دوستی کی فضا میں پرسکون خوش و خرم زندگی نصیب ہو جائے، لیکن وطن عزیز میں جمہوری نظام کی جگہ چند اشرافیہ خاندان کا خود ساختہ کھوکھلا نظام حاکم رہنے کی وجہ سے آج تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ یاد رکھیں کہ جب تک پاکستانی معاشرے پر حاکم اس ناانصافی کے تناور درخت کی جڑیں تلاش کرکے نہیں کاٹیں گے، بدبختی کے بادل چھٹ کر پاکستانی قوم کے لئے خوشحالی میسر آنا ممکن نہیں۔

 

کون نہیں جانتا کہ ناانصافی کا اصل سبب موروثی سیاست ہے۔ پاکستان میں انصاف پر مبنی نظام لانے کے لئے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ تقریباً چار سال قبل عمران خان نے پوری طاقت سے موروثی سیاست کا مقابلہ کیا اور موروثی ساسیت کو زمین بوس کرکے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریکارڈ ثبت کرایا۔ بدون تردید اس سے موروثی سیاست دانوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ سیاست کی دنیا میں عمران خان ایک نڈر اور آزاد حاکم کے طور پر ابھرے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خان صاحب اپنے دور اقتدار میں پاکستانی قوم کی توقعات کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی تمام پالسیز کا نتیجہ پاکستان کے مفاد میں نکلا۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں، بلکہ ان کے بہت سارے اقدامات سے پاکستانی اکثریت کو اختلاف رہا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے شیطان بزرگ امریکہ کے سامنے پاکستانی قوم کے حق خود ارادیت کی اچھی نمائندگی کی۔ پاکستان کے استقلال کا برملا اظہار کیا اور اسلامو فوبیا کی حقیقت سے پردہ اٹھانے کے ساتھ پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں دہشتگردی کی کارروائیوں کا ماسٹر مائینڈ امریکہ ہے۔

بدون تردید امریکہ کی غلامی سے انکار کرنا سابق وزیراعظم عمران خان کا سب سے نمایاں کارنامہ رہا، جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انہوں نے پاکستان کے سابقہ وزیراعظم، چور نواز شریف، ڈاکو زرداری اور اقتدار کے بھوکے دہشتگروں کے باپ مولانا فضل الرحمان کی طرح امریکہ کا نوکر بن کر اقتدار بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے بین الاقوامی اہم اجلاسوں میں کھل کر امریکہ کی سیاہ پالیسیوں سے پردہ اٹھایا، اس کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور پاکستان کے استقلال و آزادی کے پرچار کا کھل کر اعلان کیا۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں، بلکہ بہت ہی لائق تحسین اقدام تھا۔ موصوف کے اسی کارنامے کے سبب آج پاکستان کی پوری قوم کے دلوں میں عمران خان کی محبت رچ بس چکی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے شناخت کروائی۔ انہوں نے پاکستانی قوم میں خود اعتمادی کی طاقت پیدا کرنے کی جدوجہد کی۔

بلاشبہ امریکہ کے مقابلے میں ڈٹ کر عمران خان نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے۔ اس ملک کے باشندے پاکستان میں امریکہ کی مداخلت سے بیزار ہیں۔ چنانچہ امریکہ کی غلامی قبول کرنے سے انکار کرنے پر ہی عمران خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ امریکہ پاکستان میں موجود اپنے زرخرید غلاموں کو متحد کرکے میدان میں لایا۔ انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک چلائی، مادی مفادات کے بھوکوں کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگایا، بہت سارے ضمیر فروش لوٹوں کو خریدا اور خان صاحب کو اپنے منصب سے ہٹانے میں کامیابی حاصل کی۔ جس پر سیاست سے ناجائز فائدہ اٹھا کر جیبیں پر کرنے والے لٹیروں نے جشن منایا، مٹھائیاں تقسیم کیں، یوں انہوں نے ایک بار پھر وطن عزیز پاکستان میں چوروں کے پنجے مضبوط کرانے میں کردار ادا کیا۔ اس مہم میں نااہل سیاستدانوں نے خوب پیسے خرچ کئے، جس کا ریکارڈ تاریخ کا حصہ بنا۔

اب اگلے الیکشن تک ہر محب وطن پاکستانی کو چاہیئے کہ خواب غفلت سے بیدار رہے اور ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے کے لئے قوم کی ذہن سازی کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے۔ البتہ اس حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری تعلیم یافتہ طبقوں کے کاندھے پر عائد ہوتی ہے۔ اہل علم خواہ کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں (خطیب مفکر، محقق، ٹیچر، امام جمعہ، صاحب قلم، سماجی شخصیات و۔۔۔۔ سب کو عوام بیداری کے لئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ عوام میں شعور کی کمی کے سبب بآسانی موروثی سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں اور بے بنیاد باتوں سے متاثر ہو کر اب تک نااہل افراد کو ووٹ دے کر ایوان بالا میں پہنچاتے آرہے ہیں۔ اب اس سلسلے کو بند ہونا چاہئے.

باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ باتیں سمجھائیں کہ پاکستانی قوم نے نااہل لوگوں کے ہاتھوں ہزاروں بدبختیاں، مشکلات اور سختیاں جھیل کر زندگی کے لمحات گزارے ہیں۔ قومی سرمائے کو چند اشرافیہ خاندان اپنے باپ کی وراثت سمجھتے ہوئے اپنی عیاشی میں لٹاتے آئے ہیں، جبکہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے رہے ہیں۔ موروثی سیاست کا خاتمہ اور پاکستانی عوام کی خوشحالی لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان قوم کو یہ جان لینا چاہیئے کہ سال ہا سال سے اقتدار پر براجمان رہ کر عوام کی جان اور مال کو بازیچہ اطفال بنا کر فقط اپنے پیٹ کیلئے فکر مند رہنے والے نام نہاد نمائندے دوبارہ عوامی ووٹ سے اقتدار میں آکر پاکستان کو مزید کنگال کرنے کے لئے پر و بال بنا رہے ہیں، جنہیں ووٹ دینا ملک اور قوم کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہے اور خیانت کرنا گناہ کبیرہ ہے، جس کی سزا سنگین ہے۔

باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کے ذہنوں میں اس بات کو راسخ کریں کہ ہر فرد کا ووٹ قیمتی ہے۔ الیکشن میں کوئی یہ نہ سوچے کہ میرا ایک ووٹ جسے بھی دوں گا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کا ووٹ کسی نااہل کے انتخاب کا سبب بنے۔ اسی طرح یہ تصور بھی درست نہیں کہ نااہل افراد کو ہم ووٹ دیں یا نہ دیں، انہوں نے آگے آنا ہی ہے، چونکہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھاندلی ہماری سیاست کا حصہ ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ اگرچہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے، لیکن عوام اگر ہوشمندی کا مظاہرہ کرکے دھاندلی کرنے والوں پر کڑی نظر رکھیں تو اس کا راستہ روک سکتے ہیں، لہذا سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ضروری ہے۔.

عوام کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرتے وقت کم از کم اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ جس امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں، کیا وہ اور اس کی پارٹی ماضی میں برسر اقتدار رہے ہیں، اگر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے دور میں عوامی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کیا ہے یا ریاستی طاقت استعمال کرکے قوم کے جان لیوا دشمن درندہ صفت کے حامل دہشتگردوں کو تقویت فراہم کی ہے؟ عوام کو اس بات پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ وہ جسے ووٹ دے رہے ہیں، کہیں وہ اپنے دور اقتدار میں قومی وسائل دہشتگردوں کو پالنے اور ان کی تربیت کرنے والے مدارس پر خرچ کرنے والے تو نہیں؟ کہیں وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے زرخرید مولویوں کی زبان سے کفر کے فتوے نکلوانے والے تو نہیں یا لال مسجد کو اپنوں کے ہاتھوں آگ لگوا کر اسے اقلیتی گروہ کا کیا دھرا ثابت کرکے فسادات کا بازار گرم کرنے والے تو نہیں۔

کہیں وہ 16 جنوری 2018ء کو ایوانِ صدر پاکستان میں پیغامِ پاکستان کے نام سے امریکہ سے ملنے والے ڈالر بند ہونے کے خوف سے ٹرمپ کو خوش کرنے کے لئے 1829 علمائے کرام کو جمع کرکے فتویٰ صادر کروا کر پوری دنیا میں مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بننے والے تو نہیں۔ کہیں وہ متنازعہ نصاب سازی تیار کرنے والے شیطانوں کو سپورٹ کرنے والے تو نہیں و۔۔۔۔ ان پہلووں پر غور کرکے ہی ووٹ کاسٹ کرنا عقلمندی اور دانشمندی کی علامت ہے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پر ہوتا ہے۔

جب انسان طمع و حرص میں پڑ جاتا ہے تو رشوت، چوری، خیانت، سود خوری اور اس قبیلے کے دوسرے اخلاقی عیوب اس میں پیدا ہو جاتے ہیں اور عقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خیرہ ہو جاتی ہے کہ اسے ان قبیح افعال کے عواقب و نتائج نظر ہی نہیں آتے کہ وہ اسے روکے، ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے۔ البتہ جب دنیا سے رخت سفر باندھنے پر تیار ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جو کچھ سمیٹا تھا، وہ یہیں کے لیے تھا، ساتھ نہیں لے جاسکتا تو اس وقت آنکھیں کھلتی ہیں۔ بے شک موروثی سیاست کا خاتمہ کرکے ہی پاکستانی قوم خوش بختی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ توجہ رہے کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی کو اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ موروثی نااہل خاندان پھر سے پاکستان پر مسلط ۔۔۔۔ دانشمندی کا تقاضا کیا ہے۔؟؟

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.