کیا تقسیم غلط تھی؟
’’میری خواہش ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر ایک الگ ملک بنادیا جائے۔‘‘
آج سے کم و بیش ایک صدی قبل دیکھے گئے اقبال کے اس خواب کی تعبیر کچھ یوں کی گئی کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو کاٹ کر ایک چھوٹا سا الگ ملک بنادیا گیا اور یوں وہ ہندو جو صدیوں سے محکوم چلے آرہے تھے انہیں مسلمانوں پر حکومت کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلم علاقوں کی اسی بندر بانٹ کی بنیاد پر علما کے ایک مخصوص طبقے نے برصغیر کی اس انداز میں تقسیم کی مخالفت کی اور تاحیات برے کہلائے۔
بیتے 75 برسوں میں جب بھی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے علما کے اس مخصوص طبقے کی بات ضرور یاد آئی۔ اگر اس وقت جلد بازی نہ کی جاتی، ان کی بات کو سمجھ لیا جاتا، یا پھر علما کی مخصوص جماعت اپنی بات کو اس انداز میں بیان کرتے کہ بات دل میں اتر جاتی، اور نہیں تو کم ازکم اللہ رب العزت سے اپنے تعلق کی بنا پر اللہ سے ہی درخواست کرتے کہ ان کی بات متعلقہ حکام کے دل میں اتر جائے تو آج کے بھارت میں مسکان خان جیسی بیٹیوں کو بھارتی غنڈوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
جے شری رام کے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتی مسکان خان کی کہانی تو آپ کو معلوم ہو چکی ہوگی۔ جی ہاں! وہی مسکان خان جو حجاب پہنے کالج میں داخل ہوتی ہے تو بھارتی درندے جے شری رام کا نعرہ لگاتے اسے ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جواب میں وہ شیرنی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتی ہوئی بہادری کی مثال بن جاتی ہے۔
دراصل مسکان خان کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ اب لاوا پک چکا ہے، بھارتی مسلمان اب ظلم و جبر کی اس سیاہ رات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی بار ہورہا ہے؟ یا ایسا صرف مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے؟ اگر ہم بھارت کے حالات کا جائزہ لیں تو بھارت میں بسنے والی اکثر اقلیتیں بھارت کے انتہاپسند ہندوؤں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ آج کے بھارت کے دو چہرے ہیں۔ ایک سیکولر بھارت، جو فلموں کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ بھارت کا اصل چہرہ وہ ہے جو وہاں رہنے والی اقلیتیں دیکھتی ہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کو برداشت کرتی ہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ مہذب دنیا بھارت کے اصلی چہرے کو دیکھتے ہوئے بھی اس سے پہلوتہی کرتی ہے، کیونکہ بھارت کے ظلم وستم کا شکار اکثر و بیشتر مسلمان ہوتے ہیں، جو اپنی شناخت اور حقوق کی جدوجہد کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کی غلطیوں کا خراج ادا کررہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسکان خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آج کی مسلم دنیا جاگ جائے۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان دامے درمے سخنے قوم کی اس بیٹی کو سپورٹ کریں، کیونکہ یہ ایک بیٹی نہیں بیٹیوں کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے۔
دنیا بھر میں بسنے والی مسلم عورتیں مسکان خان کی سپورٹ میں حجاب کو عام کریں۔ آج تک جنہوں نے پردہ نہیں کیا وہ بھی دشمنوں کو جلانے کےلیے ہی سہی پردہ شروع کردیں۔
مرد حضرات اسلامی کلچر کو عام کریں۔
پوری مسلم دنیا بھارتی مصنوعات کا مستقل بائیکاٹ کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دے کہ ہم ایک ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کےلیے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔
مسلم امہ حکومتی سطح پر بھارت سے اس معاملے پر شدید احتجاج کرے تاکہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے اور بھارتی حکومت کو یہ پیغام ملے کہ واقعی دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔