ریاستِ مدینہ یا کچھ اور

0 357

تحریر: رجب علی (ابو طوءامین)

فی الحال ملکی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اعتماد اور عدم اعتماد کا سیلاب جاری ہے۔ ریاست مدینہ ڈگمگا رہی ہے۔ لوٹے شوٹے بھی ہچکولے کھا رہے ہیں۔ ہمارے لوگ تو ویسے ہی حرمین شریفین کا نام سنتے ہی آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ خان صاحب نے بھی عوام کو جی بھر کر رونے کا موقع دیا ہے۔ انہیں ریاستِ مدینہ سے عوام کے عشق کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ اسی لئے تو الیکشن سے پہلے ہی انہوں نے ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کر دیا تھا۔ الیکشن تو وہ جیت گئے، اب یہ اس نعرے کی برکت بھی ہوسکتی ہے۔ خان صاحب کو برکت تو ملی لیکن عوام کو عدالت و مساوات، معدنی ذخائر، بارش کی فراوانی، زرخیز زمینوں، تعلیم کے میدان اور صحت کے شعبے سے کیا کچھ ملا، وہ سب کے سامنے ہے۔

ہم اب یہ بات کیسے کریں کہ ریاستی مدینہ کے خلیفہ جی کے چہرے پر سُنّتِ رسول والی ریشِ مبارک کیوں نہیں اور اُن کے اپنے بچے دینی تعلیم سے دور کیوں ہیں۔؟ ہمیں ان سوالات سے کیا لینا دینا۔ ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ مولانا طارق جمیل صاحب کو انہوں نے یہ کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جوانوں کو نبی کریمﷺ کی شان سنائیں، بس مولانا خوش ہیں تو ہم بھی خوش۔ ہمیں خوش رہنا چاہیئے، چونکہ خان صاحب کی ریاستِ مدینہ تو بنو امیّہ کی ریاستِ مدینہ سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی ہے۔ نصابِ تعلیم میں اہلِ بیت ؑ کے بدترین دشمنوں کو ہیرو بنا کر شامل کیا گیا ہے، نیا درود شریف ایجاد کیا گیا ہے اور انہوں نے شہداء کے وارثوں کو بلیک میلر کہا ہے۔ ایسے کام تو بنو امیّہ والی ریاستِ مدینہ بھی نہیں کر پائی تھی۔

لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے لنگر خانے یعنی مفت خوری کے چند روزہ ٹھکانے بنائے ہیں، جن پر اترایا جاتا ہے، آئے روز شدت پسندی اور درندگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سانحہ ساہیوال کے قاتلوں اور سانحہ اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈ احسان اللہ احسان تک کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماوں سے کہا گیا کہ رونے دھونے کے بجائے مزید بچے پیدا کرو اور سانحہ پشاور میں 72 کے لگ بھگ شہید اور دو سو کے قریب زخمیوں کے ورثاء کو پوچھا تک نہیں گیا۔ اب پوچھ کر ریاستِ مدینہ کے والی نے بلیک میل تو نہیں ہونا تھا۔ لوگ بھوک اور بےروزگاری کے مارے خودکُشیاں کر رہے ہیں۔ ناظم جوکھیو سے لے کر رانا زاہد شریف تک جو اونچی آواز میں بولتا ہے، اُسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

ایسے میں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ گھبرانا اس لئے نہیں ہے، چونکہ تاجدارِ مدینہ اور ریاستِ مدینہ کے حقیقی بانی، رسولِ صادقﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ آخری زمانے میں وہ آئے گا، جس کا نام میرا نام (محمد)، اس کی کنیت میری کنیت(ابو القاسم ) ہوگی اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خَلق اور خُلق میں مجھ جیسا ہوگا۔ میرے محترم قارئین ہمیں کیا ہوگیا ہے!؟ ایک طرف آخری زمانہ ہے۔ ہمیں لوگوں کو ریاستِ مدینہ کے حقیقی وارث حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور کیلئے تیار کرنا چاہیئے۔ قرآن اور روایات کی روشنی میں یہ عصر، عصرِ ظہور ہے اور ہم اس عصرِ ظہور میں اُن لوگوں کیلئے نعرے لگا رہے ہیں، جو دجّال کا کردار ادار کر رہے ہیں۔ خدا را بصیرت کا مظاہر کیجئے، ان دجالوں کی صف سے نکلئے اور ایک پاکیزہ و باکردار، ایک مصطفوی و مہدوی معاشرے کی تشکیل کیلئے عوام کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایئے۔ سیاست کیجئے لیکن مہدوی بصیرت کے ساتھ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.