لاہور کا کورکمانڈر ہاؤس/سجاد اظہر

جس مکان کو قائد اعظم ؒ نے اتنی لگن سے خریدا تھا ا س میں ان کا قیام صرف چند لمحوں کا ہی تھا

0 471

لاہور میں مظاہرین کے ہاتھوں جلایا جانے والا کور کمانڈر ہاؤس صرف اس لیے تاریخی اہمیت کا حامل نہیں کہ یہ ایک قدیم عمارت تھی جسے قومی ورثے کے تحت تحفظ حاصل تھا بلکہ اس کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ لاہور میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا گھر تھا۔اس عمارت کا شمار قائداعظم کی چار جائیدادوں میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم نے کراچی اور لاہور والے جناح ہاؤس بمبئی میں واقع اپنا لٹلز گبز والا بنگلہ اور مے فیئر فلیٹ 1943 میں فروخت کر کے خریدے تھے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان بننے والا ہے اور انہیں کراچی اور لاہور میں رہائش گاہوں کی ضرورت ہو گی۔نامور محقق اور سینیئر بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ’محمد علی، دولت، جائیداد اور وصیت‘ میں لکھا ہے کہ قائد اعظم جب کوئٹہ تشریف لائے تو انہوں نے مسلم لیگی رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے گھر قیام کیا۔ اس دوران قائداعظم ان کے گھر کے حسنِ تعمیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں کہا کہ جب آپ لاہور تشریف لائیں تو وہاں میرے لیے کوئی مکان دیکھیں۔انہوں نے قاضی عیسیٰ کو یہ تجویز بھی کیا کہ لالہ موہن لال کا مکان برائے فروخت ہے، اگر آپ کو پسند آئے تو میری طرف سے سودا کر لیں۔ قاضی عیسیٰ نے کہا، ’یہ ضروری نہیں کہ میری پسند آپ کی بھی پسند ہو۔‘قائد اعظم نے جواب دیا ’نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ جو آپ کو پسند ہو گا وہی مجھے پسند ہو گا۔‘یہ قاضی عیسیٰ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد تھے۔
جناح ہاؤس لاہور جہاں واقع ہے یہ جائیداد لالہ شیو دیال سیٹھ کے نام تھی، جو لاہور کی اہم سماجی شخصیت تھے اور تعمیرات سے وابستہ تھے۔ انہوں نے 1935 میں اپنی وفات سے کچھ سال پہلے یہ جائیداد خواجہ نذیر احمد کو فروخت کر دی جنہوں نے یہ جائیداد اپنی بیگم کے نام کر دی۔ ان کی بیگم نے یہ بنگلہ لالہ موہن لال بھابن کو فروخت کر دیا۔ قائداعظم نے یہ بنگلہ موہن لال سے جولائی 1943 میں ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا تھا۔قائد اعظم نے جب یہ مکان خریدا تو اس سے پہلے ہی یہ بنگلہ برطانوی فوج نے کرائے پر حاصل کر رکھا تھا جس کا ماہانہ کرایہ علامتی طور پر پانچ روپے تھا کیوں کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت برطانوی فوج کوئی بھی جائیداد حاصل کر سکتی تھی۔جب قائد اعظم نے یہ مکان خرید لیا تو فوج کی کرایہ داری کی میعاد ختم ہونے والی تھی تاہم فوج نے پھر اسی رول کے تحت اس میعاد میں توسیع کر لی۔
قائد اعظم اور برطانوی فوجی حکام کے درمیان ڈیڑھ سال خط و کتابت ہوتی رہی کیوں کہ قائد اعظم نہ صرف اپنے مکان کا قبضہ واپس لینا چاہتے تھے بلکہ انہیں اس مکان میں ہونے والی تعمیراتی تبدیلیوں پربھی اعتراض تھا۔اس پر پنجاب کے سیکریٹری داخلہ مسٹر ولیمز نے مداخلت کی اور یکے بعد دیگرے تین آئی سی ایس افسران جی ڈی کھوسلہ، ایس این ہسکر اور شیخ عبد الرحمٰن کو ثالث مقرر کیا کہ وہ فوج اور مسٹر جناح کے درمیان معاملہ حل کروائیں۔یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ قائد اعظم یہ گھر فوج سے خالی نہیں کروا سکے یا پھر ان کی مرضی کے مطابق کرائے میں 700 روپے کا اضافہ ہو گیا۔ نئے معاہدے کی میعاد اپریل 1947 مقرر ہو ئی۔سعد ایس خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کرایہ نامہ کی میعاد ختم ہونے سے چند ہفتے قبل ہی تین جنوری 1947 کو قائد اعظم کو گیریژن انجینیئر لاہور کی طرف سے مراسلہ موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا:’لاہور کے ایریا کمانڈر کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ میں آپ کو افسوس کے ساتھ مطلع کروں کہ لاہور میں فوجی ضروریات کے لیے عمارتوں کی شدید کمی کے باعث، آپ کا مکان بطور فوجی میس کے کام آ رہا ہے، آپ کو کرایہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی تاحکم ثانی واپس نہیں کیا جا سکے گا۔ اس عسکری لاچاری کے باعث آپ کی جو دل آزاری ہوئی اس کے لیے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔‘
قائد اعظم برطانوی فوج کے اس جواب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے مکان کو ہر صورت واگزار کرانا چاہتے تھے لیکن اسی دوران لاہور ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔پھر وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے تین جون کا منصوبہ آ گیا، جب برطانوی فوجی حکام کو پتہ چلا کہ بنگلے کے مالک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل نامزد ہو چکے ہیں تو یکم اگست 1947 کو کرنل اے آر ہارس نے قائد اعظم کو ایک خط لکھ کر 31 اگست تک بنگلہ خالی کر کے واپس کرنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔
لیکن قائد اعظم اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث بنگلے کا قبضہ واپس لینے نہیں آ سکے تو 31 جنوری 1948 تک کرایہ نامے میں توسیع کر دی گئی۔ جب لیز کی میعاد ختم ہوئی تو قائد اعظم کے نمائندے سید مراتب علی نے، جو پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت سید بابر علی کے والد ہیں، بنگلہ واپس لینے کی کارروائی شروع کی۔پاکستان کے عسکری حکام نے کسی متبادل جگہ کی دستیابی تک مکان کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کر لی۔ جس پر قائد اعظم نے رضا مندی ظاہر کر دی۔قائد اعظم کے چار گھروں بمبئی، کراچی اور لاہور میں یہ واحد مکان تھا جہاں قائد اعظم ایک دن بھی قیام نہیں کر سکے۔ قائد اعظم جب لاہور آتے تھے تو فلیٹیز ہوٹل کے سوٹ نمبر 18 میں ٹھہرتے تھے۔ 1948 میں جب وہ بطور گورنر جنرل لاہور تشریف لائے تو سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے اور اپنا بنگلہ دیکھنے کچھ دیر کے لیے یہاں تشریف لائے جہاں انہوں نے سٹڈی روم میں فوجی حکام کے ساتھ چائے پی اور پھر لان میں تھوڑی دیر چہل قدمی کی۔
قائد اعظم کے انتقال کے بعد فوج نے فاطمہ جناح اور شیریں جناح کو ایک خط بحوالہ نمبر 561/28.Q-3 بتاریخ 18 فروری 1950 لکھا جس میں انہیں 500 روپے ماہانہ کرائے کی پیشکش کی جو سابق کرایہ سے 200 روپے کم تھی۔معاہدے کے بعد مکان کو دسویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کی سرکاری رہائش قرار دے دیا گیا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم کی بہنوں سے یہ مکان خریدنے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ جب جنرل ایوب صدر تھے تو 21 مارچ 1959 کو بیع نامے پر دستخط ہو گئے اور 16 اپریل 1959 کو مکان کی رجسٹری افواجِ پاکستان کے نام ہو گئی۔اس وقت جناح ہاؤس کی خریداری کی رقم ساڑھے تین لاکھ روپے جناح ٹرسٹ فنڈ میں جمع کروائی گئی۔اس وقت سے لاہور کے کور کمانڈر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس مکان میں رہتے ہیں جو کبھی بانی پاکستان کی ملکیت تھا۔(بشکریہ انڈیپنڈنٹ)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.