بونوں کے سماج میں اقرارالحسن جیسے لوگ
تحریر: نذر حافی
سانحہ تلمبہ ابھی بالکل تازہ تھا۔ مقتول کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا۔ اس کی کٹی ہوئی انگلیوں سے خون رِس رہا تھا۔ میرے کالم کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ گذشتہ کالم کو ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ایک مرتبہ پھر ہماری قومی و سرکاری تربیت جیت گئی اور انسانیت شرما گئی۔ کالم میں خبر شامل کرتے ہیں شہر قائد کراچی سے۔ جہاں ہماری پروفیشنل تربیت ایک مرتبہ پھر جیت گئی اور انسانیت ایک مرتبہ پھر ہار گئی۔ گذشتہ روز کراچی میں اینکر پرسن اقرار الحسن کو حُبّ الوطنی کے انجیکشن لگائے گئے۔ اقرار الحسن نے اب تک ملک و قوم کے ساتھ کئی غداریاں کی تھیں۔ انہوں نے کئی بڑے بڑے رشوت خوروں اور کرپٹ حضرات کو سرِعام بے نقاب کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں بے نقابی اور بے حجابی پھیلنے اور پھیلانے کی سزا تو اُنہیں ملنی ہی چاہیئے تھی۔ پھر انٹیلی جنس بیورو کا تو کام ہی یہی ہے۔ چنانچہ آئی بی کے اعلیٰ تربیت یافتہ کارندوں نے اپنی پروفیشنل ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کے چودہ طبق روشن کر دیئے۔
کام تو سات طبق روشن کرنے سے بھی چل سکتا تھا لیکن بجلی کے جھٹکے لگا لگا کر اکٹھے چودہ طبق روشن کرکے بھرپور طریقے سے فرائضِ منصبی کو ادا کیا گیا۔ یہ چودہ طبق ایسے ہی روشن نہیں ہوئے۔ اس کے لئے پیٹی بھائیوں کا اکٹھ ضروری تھا۔ وہی اکٹھ جو ایسے ہر واقعے سے پہلے اور بعد کیا جاتا ہے۔ اب کسی نے تو اس بندہ گستاخ کا منہ بند کرنا تھا۔ اس کیلئے کسی کو تو چند دن کیلئے معطل ہونے، تبادلہ ہونے وغیرہ کے نام پر اپنے پیٹی بھائیوں کیلئے قربانی دینی ہی تھی۔ اس مرتبہ قربانی دینے کا سہرا ڈائریکٹر آئی بی کے سر گیا۔ ہماری تو تاریخ ہی ایسی قربانیاں دینے والوں سے بھری ہوئی ہے۔ چند واقعات میں آپ کو یاد کروا دیتا ہوں۔ ہمارے دارالحکومت میں ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کی اہلکاروں کا خواتین کو بالوں سے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانا تو آپ کو یاد ہوگا۔[1] اسی طرح اسلام آباد میں ہی ایئرپورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے اہلکاروں کی مسافروں پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش بھی آپ کو یاد ہوگی۔[2] راولپنڈی میں اسامہ ستی کی گاڑی کی ونڈ اسکرین پر لگی گولیاں بھی آپ نہیں بھولے ہونگے۔[3] آپ کو اگر بھولنے کی بیماری ہو تو تب بھی آپ سانحہ ساہیوال کو تو نہیں بھول سکتے۔[4]
اب سانحہ سیالکوٹ جیسے سانحات، ڈیرہ اسماعیل خان جیسے اغوا برائے تاوان کے واقعات اور ملک بھر سے لاپتہ افراد کی بات تو ہم کرتے ہی نہیں۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فریڈم نیٹ ورک نامی ادارہ صحافی حضرات کے حقوق کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان میں مئی 2020ء سے اپریل 2021ء کے درمیانی ایک سال کے عرصے میں پاکستان کے اندر اس دوران پانچ صحافی لاپتہ ہوئے، سات قتل ہوئے، پچیس کی گرفتاریاں ہوئیں، 15 کو اقرارالحسن کی طرح پھینٹی لگائی گئی، ستائیس پر مقدمے قائم کئے گئے۔ مجموعی طور پر اس ایک سال میں صحافی برادری پر 148 حملے ہوئے اور صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں گذشتہ کی نسبت چالیس فیصد اضافہ ہوا۔ یہ رپورٹ یہ ہوشربا انکشاف بھی کرتی ہے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے ان 148 حملوں میں سے 51 حملے صرف اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔ یعنی پاکستان کے اندر صحافیوں کیلئے سب سے غیر محفوظ علاقے کا نام اسلام آباد ہے۔
سوچنے بولنے اور لکھنے والوں کو رام کرنے کیلئے اُن کے عزیز و اقارب کے ساتھ جو کیا جاتا ہے، اس کی تفصیل اس سے ہٹ کر ہے، جیسے کہ ندیم گرگناری کے دونوں جواں بیٹوں کی ہلاکت وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح عزیز میمن کی مانند، جن کی موت کو خودکُشی کہہ دیا جاتا ہے، اب اُن کی فہرست کون بنائے۔ ان سارے واقعات و سانحات پر یہی ردّعمل سامنے آتا ہے کہ فلاں کو فوری برطرف، تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی، معطل کر دیا گیا، نوٹس لے لیا گیا اور ایکشن ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ برطرفیاں، نوٹس، ایکشن، تحقیقاتی کمیٹیاں اور بیانات سب کچھ پہلے سے لکھے گئے اسکرپٹ کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں کرناٹک کی مسکان نامی لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ کسی نے کہا کہ مجھے تو یہ اپنے ملک کی طرح ایک لکھا لکھایا اسکرپٹ ہی لگ رہا ہے۔ اسکرپٹ والے بھائی کی بات سے ہمیں بھی کوئی انکار نہیں، ممکن ہے اسکرپٹ ہی ہو، لیکن جو چیز ہمیں چونکا دینے کا باعث بنی، وہ یہ ہے کہ گویا وہاں سکرپٹ میں یہ ہدایات موجود ہوتی ہیں کہ خبردار لڑکی کو چھونا تک نہیں اور یہاں یہ حکم ہوتا ہے کہ نشانِ عبرت بنا دو۔
ہر دور میں جہاں بونوں کو اختیارات مل جاتے ہیں، وہاں بڑوں کو نشانِ عبرت بنا ہی دیا جاتا ہے۔ کوئی سانحہ سیالکوٹ و سانحہ تلمبہ اور کوئی لیاقت علی خان، مشال خان، قاری سعید چشتی، ابصار عالم، اسد طور، عزیز میمن، ڈاکٹر چشتی مجاہد، حسنین شاہ، ذیشان بٹ، حامد میر، مطیع اللہ جان اور اقرارالحسن و ذہنی معذور صلاح الدین کی طرح کی طرح نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ آپ انسان کُشی کے مرض میں مبتلا اداروں اور لوگوں کو طالبانائزیشن، مافیاز، شدت پسند اور قانون کے مجرم وغیرہ وغیرہ جو بھی الزام دیں، لیکن ہر نشانِ عبرت بننے والا اپنے پیچھے ہماری اجتماعی اور پیشہ وارانہ تربیت پر کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے۔ سانحہ سیالکوٹ ہو یا سانحہ تلمبہ، ذہنی مریض صلاح الدّین ہو یا اینکر پرسن اقرارالحسن، مضروبین کی حالت دیکھ کر یہ سوال خود بخود اٹھنے لگتا ہے کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے۔؟ زخموں کے نشاں بتاتے ہیں، درندگی کے اسالیب بیان کرتے ہی، سفاکیّت خود چیختی ہے، لاقانونیت اعلان کرتی ہے اور تشدد کے مناظر چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ بونے مختلف ہوتے ہیں، لیکن بڑوں کے مدِّمقابل ایک ہوتے ہیں۔ جہاں بونوں کا سماج ہو، وہاں بڑوں سے جینے کا اختیار چھین لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] https://urdu.geo.tv/latest/164259
[2] https://www.dawnnews.tv/news/1113104/
[3] https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55560517
[4] https://www.dawnnews.tv/news/1113167