چلیں شکر ہے کہ نہ تھمنے والی سیاسی دشمنی کے ماحول میں کسی نے سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کرنے کی عملی کوشش تو شروع کی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق گزشہ روز پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملے اور بعد میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
شام کے وقت میںنے اُن سے رابطہ کیا تا کہ جان سکوں کہ کیا کوشش ہو رہی ہے اور آیا امیر جماعت کو کوئی مثبت رسپانس ملا بھی کہ نہیں۔
سراج الحق صاحب نے مجھے بتایا کہ اُن کی ملاقات کا مقصد سیاست کی موجودہ تلخی، جو دشمنی میں بدل چکی ہے، کو ختم اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کیلئے سیاستدانوں کو ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کرناہے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر سیاستدانوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا، اپنی اپنی ذاتی انا اور سیاسی مفادات کو پیچھے رکھ کر پاکستان کے بارے میں نہ سوچا اور ایک ساتھ نہ بیٹھے تو ہمارا حال بھی خدانخواستہ عراق، لیبیا اور شام وغیرہ جیساہو سکتا ہے۔
میرے استفسار پر اُنہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان دونوںنےاُنہیں مثبت جواب دیااور سیاستدانوں کے درمیان بات چیت سے متعلق حوصلہ افزا ردعمل دیا۔
میں نے پوچھا کہ اگر طرفین بات چیت کی لئے راضی ہیں تو اب امیر جماعت اسلامی کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا اور آیا اب وہ دونوں اطراف کو ساتھ بٹھانے کیلئے عید سے پہلے یا عید کے فوری بعد کوئی بات کریں گے، جس پر سراج الحق نے بتایا کہ اُن کیلئے وزیر اعظم اور عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے حق میں ہامی بھرنا ایک اہم اقدام ہے، جس کے بعد وہ چند ایک دوسرے سیاستدانوں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ سیاستدانوں کے درمیان بات چیت شروع کرائی جائے اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کی کوئی تدبیر ہو سکے۔ سراج الحق ایک ساتھ پورے ملک میں انتخابات کے حامی ہیں اور اس کیلئے اُن کی
کوشش ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کریں۔ سراج الحق سے اس گفتگو کے تھوڑی دیر بعد مولانا فضل الرحمٰن کا بیان چینلز پر سننے کو ملا ،جس میں اُنہوں نے عمران خان سے بات چیت کے آپشن کو مکمل بطور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ (حکمراں اتحاد) اتنا گر گئے ہیں کہ عمران خان سے بات کریں۔ نہیں معلوم کہ مولانا کا یہ بیان سراج الحق کی کوششوں کے متعلق خبروں کا ردعمل تھا یا اُنہوں نے یہ بات پہلے کسی تقریب یا اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوے کی لیکن اس سیاسی رویےکی ، چاہے وہ کسی بھی طرف سے ہو، حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔
اگر پہلے عمران خان بات چیت کے خلاف تھے اور اپنے مخالفوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے راضی نہ تھے تو اُن کا یہ عمل غلط تھا۔ اسی طرح حکمراں اتحاد یا اُس کا کوئی رہنما اگر اب وہی بات کرے کہ کچھ بھی ہو عمران خان سے بات نہیں کرنی تو ایسے رویے کی ہر صورت حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ اب تو حکمراں اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی حکومت اور عمران خان کے درمیان بات چیت کے حق میں بات کر رہے ہیں اور خبروں کے مطابق اُنہوں نے اس سلسلے میں پی پی پی کے تین سینئر اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے تا کہ دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے مذاکرات کیلئے کوئی رستہ نکالا جائے۔
امید ہے کہ سراج الحق جلد ہی زرداری اور مولانا سے بھی ملاقات کریں گے تا کہ پاکستان کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کیلئے مذاکرات کا رستہ ہموار کیا جائے۔ یہاں میری امیر جماعت اسلامی سے گزارش ہو گی کہ مذاکرات صرف انتخابات کے نکتہ پر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرتے وقت معیشت اور گورننس کی بنیادوں کو ٹھیک کرنےکیلئے میثاق معیشت اور میثاق گڈ گورننس پر بھی سیاستدانوں کو راضی کیا جائے کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری جمہوریت عمومی طور پر صرف انتخابات اور اقتدار کے گرد ہی گھومتی ہے اور سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کے بعد بہتر طرز حکمرانی، اداروں کی مضبوطی جیسی اہم ترین ذمہ داریوں کو بھول جاتی ہیں اور معیشت جیسا اہم ترین معاملہ حکومت و اپوزیشن کی سیاست کی بھینٹ ہی چڑھا رہتا ہے۔
Next Post