حرم سے حرم تک، نجف تا کربلا
ظہورِ امام زماں عج تک کا سفر
پیدل سفر کو عراق میں مشی کہتے ہیں، فارسی ادب میں پیادہ روی کہا جاتا ہے۔ عشق کی لغت میں سفرِ عشقِ حُسین تصور کیا جاتا ہے۔ زائرین، امام حُسین ؑکے چہلم سے قبل یہ سفر نجف سے کربلا کی جانب کرتے ہیں۔ علمائے امامیہ، پیادہ روی کو کربلا سے ظہورِ امام ؑکی طرف سفر قرار دیتے ہیں۔ پیدل سفر دراصل امام زماںؑ کی عالمی حکومت کی ایک جھلک ہے۔ عراق کے دو شہروں کے درمیان کروڑوں افراد پیدل سفر کرتے ہیں، 80 کلومیٹر پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جاتی ہے، دنیا کے گوش و کنار سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہاں کوئی امیر یا غریب نہیں ہوتا، سب کی ایک ہی شناخت ہے، کسی کا تعلق امریکہ سے ہے تو کوئی افغانستان سے ہے، یورپ سے ہے تو کوئی زائر ایشیاء سے آیا ہوتا ہے۔ یہاں کوئی امریکی، افریقی، پاکستانی یا ہندوستانی نہیں ہوتا۔ یہاں صرف حسینی ہوتا ہے، صرف زائر امام حسین ؑہوتا ہے، سب ایک دوسرے کو زائر سے مخاطب کرتے ہیں۔ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا، سب لشکر امام مہدیؑ کا حصہ ہوں گے، ایک حکومت ہوگی، ایک امام کی طاعت ہوگی۔ یہاں جغرافیائی سرحدیں مٹ جاتی ہیں، قومیت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے، نسلی امتیاز ختم ہو جاتا ہے، یہاں سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں، یعنی امام حسینؑ کے رنگ میں۔ یہ سب حسینی ہیں، امام کی سلطنت کے شہری ہیں، یہ حسینی جہاں بھی آباد ہوں، لیکن امام کی سلطنت کا دارالحکومت کربلا ہے۔
موکبِ امام رضا علیہ السلام میں عالمِ دین کا خطاب
نجف سے کربلا کے درمیاں عارضی امامبارگاہیں ہیں، جنہیں موکب کہا جاتا ہے۔ چند مواکب شہدائے کربلا کے نام پر ہیں تو کچھ مواکب امام رضاؑ، امام حسین ؑ اور حضرت عباس علمدار کے نام پر حرم کی انتظامیہ قائم کرتی ہے، ان کے انتظامات کا آغا یکم صفر سے ہو جاتا ہے۔ اربعین قریب آتے ہی پیدل سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مواکب پر چائے، پانی کی سبیلیں اور کھانے کے سٹال ہوتے ہیں، لیکن کچھ مواکب خدماتی ہوتے ہیں۔ روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام سے وابستہ الکفیل یونیورسٹی کا خدماتی موکب اہم خدماتی مواکب میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ عملے کے علاوہ یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلبہ بھی زائرین کرام کو خدمات پیش کرتے ہیں۔ سردیوں میں گرم مشروبات اور گرم موسم کے پیش نظر چوبیس گھنٹے ٹھنڈا پانی، جوسز اور مشروبات بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
دوسرا اہم موکب، حرمِ امام رضا ؑ کی جانب سے لگایا جاتا ہے۔ یہاں ایرانیوں اور غیر ایرانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دیگر مواکب کی نسبت زیادہ سہولیات ہوتی ہیں، کچھ دیر اس موکب پر آرام کیا۔ مجھے فارسی زبان کی کچھ سمجھ آرہی تھی، ایک ایرانی عالم دین زائرین سے گفتگو کر رہا تھا اور سب ہمہ تن گوش ہو کر سن رہے تھے۔ عالم دین نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: "یہ راستہ شہداء کے راستے پر چلنے جیسا ہے۔ روس، کشمیر و ہند، افغانستان، یورپ سے اور امریکہ سے آنے والوں نے ہمارے شہداء سے سیکھا ہے۔ ماتھے پر پٹیاں باندھتے ہیں۔ یہاں موکبِ امام رضاؑ میں آتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں آقا اور امام کی تصویریں دیں، ہم اپنے بیگوں پر لگانا چاہتے ہیں۔ یہاں ساری دنیا سے ایک سو ستر ممالک سے شیعہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ مختلف موکب میں بیرون ملک سے آنے والوں مہمانوں کو شمار کر رہے ہیں، جن کی تعداد الحمد للہ بہت زیادہ ہے۔ وہ لوگ جو تمدن اسلامی چاہتے ہیں، اس راستے پر چلتے رہیں۔ مغربی تمدن کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس راستے پر چلتے رہیں۔ ہمارے جہاد کا راستہ وہی ہے، جو ہم نے اپنے شہداء سے سیکھا ہے۔
آنکھوں سے پردے ہٹ جاتے ہیں
خطاب میں مزید فرمایا: "اس پیادہ روی میں پردے اٹھ جاتے ہیں، خدا گواہ ہے کہ انسان ظہور کے جلووں کو دیکھتا ہے۔ ظہور امام ؑ کے وقت میں لوگ، دل و جان کے ساتھ دوسرے لوگوں کی خدمت کیا کریں گے۔ یہاں بھی ویسا ہی ہے کہ آپ کو زبردستی لے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو کھانا کھلائیں۔ لوگ اپنے پیسے کی پروا نہیں کرتے، اپنے آرام کا خیال نہیں کرتے، تاکہ دوسروں کے لئے آرام کا باعث بنیں، ایسے لوگوں کے لئے کہ جنہیں بالکل نہیں جانتے۔ نہیں جانتے کہ کون ہے، اس کی قومیت، اس کے دین کے متعلق نہیں پوچھتے، کہتے ہیں کہ تم جو کوئی بھی ہو، آجاو۔ منت و سماجت کرتے ہیں، درخواست کرتے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ وہ جلوے ہیں، جو ظہور امام ؑ میں نظر آئیں گے، انسان کی آنکھوں سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ جو لوگ اس پیادہ روی میں شرکت کر رہے ہیں، وہ اس بات کو سمجھیں گے اور محسوس کریں گے، جو لوگ سنیں گے، وہ تو سنیں گے، لیکن "شنیدن کی بود مانند دیدن” سننا کب دیکھنے کے برابر ہوتا ہے۔؟جو ایک مرتبہ اربعین کی پیادہ روی میں آجاتا ہے، پھر نہیں ہوسکتا کہ وہ دوبارہ نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال یہاں لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ سب لوگ کربلا جا رہے ہیں، جانتے ہیں کہ کیوں۔؟ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ ہم کربلا کا واقعہ تکرار نہیں ہونگے دیں گے۔ اس وقت میں ستر لوگ تھے یا سو افراد تھے یا زیادہ سے زیادہ دو سو تھے، وہ سب امام ؑ کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ آج چار کروڑ لوگ ہیں یہاں۔ آج دنیا والوں کے لئے یہ سوال ہے کہ یہ کالے کپڑے پہنے ہوئے لوگ، جنہوں نے کالے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں، کس کے عزادار ہیں۔؟ یہ کہاں جا رہے ہیں۔؟ ذرائع ابلاغ سے اربعین ملین مارچ کو چھپانے کی ناکام کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں جو اتنا بڑا اجتماع ہوا ہے، اس کی خبر دنیا بھر میں پھیلائی جانی چاہیئے۔ یہاں مختلف فلمیں بنائی جائیں اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہنچایا جائے، تاکہ دنیا امام حسین ؑ کو جان سکے۔”
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع
خطاب جاری تھا، موکب میں سامعین کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، عالم دین نے خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا: انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع اکٹھا ہوچکا ہے، دنیا کا ریکارڈ قائم ہوچکا ہے، ان شاء اللہ ایک دو سال بعد کی تعداد میں اکٹھے ہونے والے اجتماع کے ریکارڈ کو آئندہ کبھی کوئی تکرار نہیں کرسکے گا۔ ان کے لئے یہ سوال ہے کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔؟ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ سب لوگ امام حسین ؑ کے مرقد کی طرف جا رہے ہیں۔ آرامگاہ مقدس حسین ؑ ، پھر پوچھتے ہیں کہ حسین ؑ کون ہے، یہی چیز ظہور کی ایک دلیل ہے۔ لوگ قدم بقدم آگے بڑھ رہے ہیں اور ظہور امام زمانہ و زمانے کے امام حسین ؑ کے ظہور کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔؟ جب امام زمانہ ؑ اپنا تعارف کروائیں گے تو فرمائیں گے: "یا اہل العالم ! انا جدی الحسین قتل عطشانا۔ اے دنیا والو! میں اس حسین ؑ کا بیٹا ہوں، جسے پیاسا قتل کر دیا گیا۔” اس دن ساری دنیا والے حسین ؑ کو جان جائیں گے۔ ساری دنیا حسین ؑ کو جان لے گی، کیوں؟۔۔۔۔۔۔ پھر امام ؑ فرمائیں گے: اے دنیا والو! انا جدی الحسین ؑ ترحوا عریانا۔۔۔۔۔ میں اُسی حسین ؑ کا بیٹا ہوں کہ جس کے پاک بدن کو یونہی چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم اس حرم کی طرف جا رہے ہیں، اس راستے میں چلتے ہوئے اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ ہم وہ راستہ طے کر رہے ہیں، جو امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ جا ملتا ہے۔” ایرانی عالم دین کا خطاب ختم ہوا تو پیدل چلنے والے ایک نئے عہد کے ساتھ کربلا کی جانب چل پڑے۔