خطہ بَلتستان کے نابغۂ روزگار عالمِ دین شیخ حسن مہدی آبادی(اعلی اللہ مقامہُ)
تحریر: آغا زمانی
علم دوستی، غریب پروری، یتیموں کا سہارا، مدارس کو آباد کرنے کی بات ہو اور محروموں کی حمایت کا مسئلہ ہو تو ہمارے ذہن میں ایک نام ابھرتا ہے اور وہ نام ہے “حجۃ الاسلام شیخ حسن مہدی آبادی اعلی اللہ مقامہُ” کا۔ آپ کا نام “حسن مہدی” تھا، علم دین کی تکمیل کے بعد لوگ آپ کو “شیخ حسن مہدی آبادی” کے نام سے پکارنے لگے۔ آپ ایک عالمِ باعمل اور آگاہ شخصیت کے مالک تھے، آپ زیرک اور دوراندیش بھی تھے۔ آپ نے بَلتستان بھر میں دینی مدارس کا ایک منظم نظام ترتیب دیا اور بَلتستان کے پسماندہ علاقوں میں مدارس قائم کئے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی دینی مدرسہ قائم کیا۔ شیخ حسن مہدی آبادی 1916ء میں بلتستان کے ضلع کھرمنگ کی سب سے بڑی وادی “مہدی آباد” ہی میں پیدا ہوئے۔ مہدی آباد کا پُرانا نام “پَرکوتہ” تھا۔ آپ کو بچپن ہی سے اسلامی علوم کی تحصیل کا شوق تھا۔ آپ نے مہدی آباد کے سرلینگ گاؤں کے معروف عالم دین شیخ غلام حسین سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے نجفِ اشرف (عراق) کا رخ کیا اور بابِ مدینۃالعلم کے جوار میں اپنی دینی، علمی اور روحانی تشنگی کو پورا کرتے رہے اور کئی سالوں کی زحمت کے بعد آپ نے علوم و فنون کے مدارج طے کئے اور واپس بَلتستان تشریف لائے۔
پرندہ صرف اپنے گھونسلے میں موجود اپنے بچوں کو دانہ دیتا ہے، ان کی بھوک پیاس کا خیال کرتا ہے، جبکہ اسی گھونسلے کے برابر میں کسی اور پرندے کے گھونسلے میں موجود بچے بھوک سے تڑپ بھی رہے ہوں، مگر ایک پرندہ دوسرے پرندے کے بچے کو دانہ نہیں دیتا، یہ حیوانیت ہے۔ صرف اپنے بچے پالنا، ان کی پرورش کرنا اور انہی کی تربیت کرنا، یہ حیوانیت ہے، لیکن انسانیت یہ ہے کہ وہ اپنے بچے بھی پالتا ہے اور دوسرے کمزور اور نادار افراد کے بچوں کے بارے میں بھی سوچتا ہے، بعض انسانوں کے اندر یہ تڑپ اور حِس موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد اور معاشرے کے دیگر افراد کی بھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرتے ہیں، یہی خصوصیات انسان اور حیوان کو جدا کرتی ہیں۔ معاشرے کا درد رکھنے والے مردِ مومن شیخ حسن مہدی آبادی بھی اسی اعلیٰ انسانی فکر کے حامل عالمِ دین تھے۔ اگر آپ چاہتے تو آپ بھی بہت سے دیگر افراد کی طرح صرف اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی پر توجہ دیتے اور فقط اپنے گھر بار کو مستحکم کرکے پُرسکون زندگی گزار سکتے تھے، لیکن! ان کے اندر دین کا صحیح فہم تھا اور آپ کا دل انسانیت کیلئے دھڑکتا تھا، آپ انتہائی دردِ دل رکھنے والے عالمِ دین تھے۔ بقولِ شاعر:
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور (علامہ اقبال)
آپ نے نجفِ اشرف سے وطن واپس آتے ہی مہدی آباد میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا اور پورے بَلتستان سے طلباء کو داخلہ دیا اور ان کے قیام و طعام کا بھی بندوبست کیا۔ آپ کی محنت اور کوشش سے یہ مدرسہ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا جامعہ محمدیہ کی شکل اختیار کرگیا۔ اسی ادارے میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی قائم ہے جو بَلتستان کی بڑی لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس جامعہ کی کئی شاخیں ملک کے مختلف حصوں میں پھیل چکی ہیں۔ شیخ حسن مہدی آبادی اعلی اللہ مقامہُ کا انتقال 78 سال کی عمر میں 15 اگست 1985ء، بمطابق ۲۸ ذیقعد ۱۴۰۵ھ کو ہوا۔ آپ کا مقبرہ مہدی آباد، ضلع کھرمنگ، بَلتستان میں ہے۔
آپ نے پوری زندگی علمِ دین کے فروغ اور طلّابِ دینی کی خدمت اور یتیموں کی کفالت میں ہی نہیں گزاری بلکہ آپ نے اپنی تمام جائیداد اسی راہ میں لٹا دی، آپ ایک بےلوث عالمِ دین کے علاوہ دردمند اور غریب پرور انسان بھی تھے، اسی لیے آپ کو اہلیانِ مہدی آباد “مجاہدِ ملّت” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے جامعہ محمدیہ(محمدیہ ٹرسٹ) قائم کرکے نہ صرف اہلِ بَلتستان پر عظیم احسان کیا بلکہ اس خطے کی دینی، علمی و سماجی ترقی میں اس ادارے کا شاندار کردار رہے گا۔ سچ کہوں تو شیخ حسن مہدی آبادی کی زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد یہ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمیں شیخ حسن مہدی آبادی جیسے نابغۂ روزگار علماء پر فخر ہے، جن کی نظریں دُور اُفق سے آگے تھیں اور آپ جیسی شخصیات بار بار پیدا نہیں ہوتیں، علامہ اقبال نے اسی لیے تو کہا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ مرحوم شیخ حسن مہدی آبادی پر اپنی رحمت فرمائے۔ آمین