محرم کے مہینے میں طالبان گروہ کی کارروائی
طالبان کیطرف سے محرم کے مہینے میں افغان سرکاری کیلنڈر سے عاشورہ کی تعطیل کی منسوخی اور تاسوعا اور عاشورہ حسینی کے بارے میں منفی خبروں کی اشاعت نہ صرف اس گروہ کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے، جو طالبان حکومت اور افغانستان کے عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیگا۔ افغانستان کے عوام توقع کرتے ہیں کہ طالبان، اس ملک کے لوگوں کی مذہبی روایات کا احترام کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے، عاشورہ حسینی کی پروگراموں کو ہر ممکن حد تک شاندار طریقے سے منعقد کرنے کیطرف قدم اٹھائیں گے اور کچھ عناصر کیطرف سے افغان عوام کو تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دینگے
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
طالبان نے افغانستان کے سرکاری کیلنڈر سے عاشورہ کی تعطیل کو ختم کرکے اس کی جگہ متعدد دوسری مناسبتوں کو رکھ دیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دسویں محرم یعنی روز عاشور کو اس ملک کے سرکاری کیلنڈر میں عام تعطیل کے طور پر ایک مذہبی رسم کے طور پر درج کیا گیا تھا, جس کا تمام افغان عوام احترام کرتے ہیں۔ محرم کے مہینے میں طالبان گروہ کی اس کارروائی نے، وہ بھی ایسے وقت جب دنیا بھر کی طرح افغانستان کے عوام شہدائے کربلا اور امام حسین علیہ السلام کے سوگ مین مصروف ہیں، اس فیصلے نے افغان معاشرے کو ایک ناقابل تصور صدمہ سے دوچار کر دیا ہے۔ حالانکہ طالبان نے تقریباً ایک سال قبل جب افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تو اس ملک میں مذہبی رسومات کی آزادی پر زور دیا تھا۔
افغان امور کے ماہر سید حسین حسینی کہتے ہیں: "سرکاری افغان کیلنڈر سے عاشورہ کی تعطیل کو منسوخ کرکے طالبان نے اس ملک میں مذہبی رسومات کے حوالے سے اپنی حقیقی ماہیت کو ظاہر کر دیا ہے۔ اس عمل سے طالبان کے نسلی اور مذہبی تعصبات کی توثیق ہو رہی ہے۔” حقیقت یہ ہے کہ افغان کیلنڈر سے عاشورہ کی چھٹی منسوخ کرکے طالبان خود کو اس ملک کے عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ درآمد شدہ تکفیری اور تفرقہ انگیز سوچ کی وجہ سے ہے، جس نے افغان طالبان سے فیصلے کی قوت کو سلب کر لیا ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی سوچ نے نوروز کی تعطیل کو منسوخ کرکے نہ صرف افغان عوام کی مذہبی رسومات بلکہ افغان عوام کے قومی رسم و رواج کو بھی نشانے پر لیا ہے۔
افغانستان کے امور کے ماہر امین فرجاد کہتے ہیں: "سرکاری افغان کیلنڈر سے عاشورہ کی تعطیل کی منسوخی ان دہشت گرد اور تفرقہ انگیز گروہوں کے خیالات کی عکاسی ہے، جو مختلف حیلے بہانوں سے امت مسلمہ کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں معروف ہیں۔ طالبان جن تکفیریوں سے متاثر ہیں، وہ باہر سے طالبان کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں۔ ان گروہوں کو پاکستان سمیت عراق و شام میں تو کامیابی نصیب نہیں ہوئی، اب وہ اس کا ازالہ افغانستان میں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مسلمان ملکوں کو مذہبی جنگوں اور اندرونی تقسیم کی طرف دھکیلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب وہ افغانستان میں اس طرح کی کارروائیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
بہرحال طالبان کی طرف سے محرم کے مہینے میں افغان سرکاری کیلنڈر سے عاشورہ کی تعطیل کی منسوخی اور تاسوعا اور عاشورہ حسینی کے بارے میں منفی خبروں کی اشاعت نہ صرف اس گروہ کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے، جو طالبان حکومت اور افغانستان کے عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کر دے گا۔ افغانستان کے عوام توقع کرتے ہیں کہ طالبان، اس ملک کے لوگوں کی مذہبی روایات کا احترام کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے، عاشورہ حسینی کی پروگراموں کو ہر ممکن حد تک شاندار طریقے سے منعقد کرنے کی طرف قدم اٹھائیں گے اور کچھ عناصر کی طرف سے افغان عوام کو تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ اقدام افغانستان کے امن کو تباہ اور مذہبی تقسیم کو جنم دے گا، جس کے نتیجے میں یقیناً افغانستان کے مذہبی معاشرے میں طالبان کی پوزیشن مزید کمزور ہوسکتی ہے۔