محرم اور کربلا، ولی امر مسلمین کی نگاہ میں

امام حسین علیہ السلام ایک بڑی کج روی سے روبرو ہوئے تھے لہذا انہیں اپنی ذمہ داری انجام دینی تھی۔ موقع بھی مناسب تھا لہذا کسی قسم کی عذر خواہی بھی قابل قبول نہیں تھی۔ یہ ذمہ داری ہمیشہ خطرے کے ہمراہ ہے۔ کیا ممکن ہے ایک انسان برسراقتدار طاقت کے خلاف قیام کرے اور کسی خطرے سے روبرو نہ ہو؟ یہ ذمہ داری ہمیشہ خطرے کے ہمراہ ہے۔ یہ وہی ذمہ داری ہے جو امام خمینی رح نے انجام دی۔ امام خمینی رح کو بھی لوگ یہی کہتے تھے کہ شاہ سے نہ ٹکرائیں۔ کیا امام خمینی رح کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کام خطرناک ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ شاہ کی ایجنسیاں افراد کو اغوا کر لیتی ہیں، انہیں ٹارچر کرتی ہیں، انہیں قتل کر دیتی ہیں اور انہیں جلاوطن کر دیتی ہیں؟

0 538

تحریر: علی احمدی

1)۔ امام حسین ع کی تحریک، ہر زمانے کیلئے سبق آموز

امام حسین علیہ السلام کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ انہیں کہاں پہچانیں؟ تاریخ میں؟ جی ہاں، یہ اس کا ایک حصہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا واقعہ صرف تاریخ کے ایک حصے سے مخصوص نہیں ہے۔ اگر تاریخ کے اسی ایک حصے سے مخصوص ہوتا تو اسے اس قدر یاد نہ رکھا جاتا۔ لہذا (یہ واقعہ) پوری تاریخ پر حاوی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے خود بھی کربلا سے پہلے اور کربلا میں فرمایا کہ ان کی تحریک ایک نمونہ اور اسوہ ہے۔ یعنی ہر جگہ ایسی طاقت برسراقتدار ہو جو آج ہے تو ضرور ایسے افراد میدان میں آئیں گے جو آج سامنے آ رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے بعد والے ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی کربلا کے واقعہ کو زندہ رکھا ہے۔

2)۔ خطرہ مول لینا، ذمہ داری ادا کرنے کی بنیادی شرط

امام حسین علیہ السلام ایک بڑی کج روی سے روبرو ہوئے تھے لہذا انہیں اپنی ذمہ داری انجام دینی تھی۔ موقع بھی مناسب تھا لہذا کسی قسم کی عذر خواہی بھی قابل قبول نہیں تھی۔ یہ ذمہ داری ہمیشہ خطرے کے ہمراہ ہے۔ کیا ممکن ہے ایک انسان برسراقتدار طاقت کے خلاف قیام کرے اور کسی خطرے سے روبرو نہ ہو؟ یہ ذمہ داری ہمیشہ خطرے کے ہمراہ ہے۔ یہ وہی ذمہ داری ہے جو امام خمینی رح نے انجام دی۔ امام خمینی رح کو بھی لوگ یہی کہتے تھے کہ شاہ سے نہ ٹکرائیں۔ کیا امام خمینی رح کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کام خطرناک ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ شاہ کی ایجنسیاں افراد کو اغوا کر لیتی ہیں، انہیں ٹارچر کرتی ہیں، انہیں قتل کر دیتی ہیں اور انہیں جلاوطن کر دیتی ہیں؟

امام خمینی رح ان حقائق سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہی کام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں بھی انجام پائے تھے۔ چھوٹی سطح پر امام خمینی رح کے زمانے میں بھی انجام پائے ہیں۔ البتہ امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا لیکن امام خمینی رح کی تحریک کا نتیجہ اسلامی حکومت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نتیجہ اہم نہیں ہے۔ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ یہ بات امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات کی بنیاد ہے۔ حسینی تعلیمات، شیعہ تعلیمات کا بڑا حصہ تشکیل دیتی ہیں۔ یہ ایک اہم مبادی ہے اور اسلامی کے مبادیات میں بھی شامل ہے۔ میں اس وقت، بیس بائیس سال پہلے، انقلابی برادران اور خواہران کو کہتا تھا کہ امام حسین ع کس زبان سے آپ کو بتائیں کہ ذمہ داری کیا ہے؟ حالات ویسے ہی ہیں، اسلام بھی وہی اسلام ہے۔ پس امام حسین ع نے تمام نسلوں کو عمل کے ذریعے سمجھا دیا ہے۔

3)۔ انقلاب اسلامی کا واقعہ عاشورہ سے تعلق

اس زمانے میں بہت سے افراد واقعہ عاشورہ اور امام حسین علیہ السلام کی یاد زندہ رکھنے میں مصروف تھے لیکن عمل کے میدان میں جب تک امام خمینی رح نے اعلانیہ طور پر واقعہ عاشورہ کی روشنی میں انقلابی تحریک کا آغاز نہیں کیا کوئی موثر عملی اقدام انجام نہیں پا سکا۔ امام خمینی رح نے دو جگہ انقلابی تحریک کو واقعہ عاشورہ سے جوڑا۔ ایک انقلابی تحریک کے ابتدائی ایام یعنی 1963ء کے محرم میں جب امام بارگاہوں، مساجد، مجالس اور ماتمی انجمنوں میں انقلابی باتیں بھی بیان ہوئیں۔ دوسرا 1979ء میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے وقت امام خمینی رح نے فرمایا: "محرم کا مہینہ تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔” اسی طرح امام خمینی رح نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کو محرم اور صفر کا نتیجہ قرار دیا۔

4)۔ امام حسین علیہ السلام کے خون کے اثرات

امام حسین علیہ السلام کا بہایا گیا خون پوری تاریخ پر گہرے اثرات لئے ہوئے ہے۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ شہید، جو مخلصانہ طور پر اپنی جان دین کے اعلی اہداف پر قربان کر دیتا ہے، خلوص نیت اور صداقت کا حامل ہوتا ہے۔ کوئی بھی خود غرض شخص چاہے جتنا ہی خود کو حق کا مدافع ظاہر نہ کرے، جب اس کے ذاتی مفادات قربان ہونے کا وقت آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اپنی جان قربان کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ ایسا انسان جو پورے خلوص نیت سے ایثار اور فداکاری کا مظاہرہ کرتا ہے اور خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ فنا کر دیتا ہے، خدا خود فرماتا ہے کہ اس کا مجھ پر حق ہے۔ خدا اسے زندہ رکھتا ہے۔ زندہ رہنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے اہداف اور اس کا پرچم ہر گز بھلایا نہیں جا سکتا۔

5)۔ اسلامی نظام کی حفاظت سب سے بڑا معروف ہے

محرم میں علماء کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کو الہی، اسلامی، علوی اور حسینی حقائق سے آگاہ کریں۔ آج سب سے بڑا معروف جس کی ترغیب دلانے کی ضرورت ہے وہ اسلامی نظام کی حفاظت ہے۔ آپ سب بخوبی آگاہ ہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے بھی اسلامی نظام کو اپنا اصل نشانہ بنا رکھا ہے۔ دشمن ایجنسیوں کی جانب سے انسانی حقوق، دہشت گردی وغیرہ جیسے بہانوں سے جو اقدامات انجام پا رہے ہیں ان کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانا ہے۔ لہذا اسلامی دنیا میں آج سب سے بڑا معروف دین اسلام اور الہی حکومت کا قیام ہے۔ اسلامی نظام کی حفاظت ایک عظیم اور عمومی ذمہ داری ہے۔ لہذا آج امر بالمعروف کا بہترین مصداق اسلامی نظام کی حفاظت کی ترغیب دلانا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.