طالبان سے۔۔۔۔۔ ایک بار پھر مذاکرات
یہ بھی ایک قابل غور نکتہ ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے بھی کچھ عرصہ سے طالبان انداز میں منظم و مربوط دہشتگردی شروع کر دی ہے، جس میں فدائی مشن بھی سامنے آئے ہیں۔ حتیٰ ایک بلوچ لڑکی جو شادی شدہ اور بچوں کی ماں تھی، اس نے کراچی میں جامعہ کراچی میں چائینیز پر خودکش دھماکہ کرکے ایک نئی سوچ کا اظہار کیا ہے۔ انکے ساتھ بھی ایسے ہی مذاکرات ہونے چاہیئے، جیسے طالبان کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ طالبان کیساتھ مذاکرات کیلئے اس سے قبل 100 قبائلی عمائدین کا ایک جرگہ افغانستان گیا تھا، طالبان کی دی گئی لسٹ میں سے بہت ہی اہم لوگوں کو چھوڑا گیا ہے اور انہیں افغان طالبان، جو ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، انکے سپرد کیا گیا ہے۔ کیا بلوچ عسکریت و علیحدگی پسندوں کیساتھ مذاکرات کیلئے بھی ایسا ممکن ہے، وطن کی فکر کرنیوالوں کو اس بارے میں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیئے۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے شروع کئے گئے عمران خان کی حکومت کے مذاکرات کی کشتی ابھی تک کسی کنارے نہیں لگی، بلکہ ہمیشہ کی طرح یہ کشتی ڈانواں ڈول، ہچکولے کھاتی، کبھی دکھتی، کبھی غائب ہوتی، کبھی دھندلی، کبھی ابھرتی، گہرے پانیوں میں چل رہی ہے۔ اس کے چپو کبھی کسی کے ہاتھ میں تو کبھی کسی کے ہاتھ میں نظر آتے ہیں، معزول کی گئی پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ مذاکرات گذشتہ برس کے آخر میں شروع کئے تھے، ابتدائی طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، جو نومبر سے لیکر دسمبر تک تھا، مگر اس ایک ماہ میں کافی سارے لوگ دہشت گردوں کی کارروائیوں کا شکار ہوئے، جبکہ اس کی خلاف ورزی کا الزام دونوں اطراف سے سامنے آتا رہا۔ آخر ایک دوسرے پر الزام لگایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مخالف گروپ نے اپنی قوت اور طاقت بڑھانے کے لئے وقت لیا ہے۔ اگرچہ ایسا ہوتا بھی ہے، مگر اس کو قبول کوئی بھی نہیں کرتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ایک بار مذاکرات کے دوران کچھ ایسی کارروائیاں سامنے آجاتی ہیں، جن کے بعد مذاکرات کا ماحول مکمل سبوتاژ ہو جاتا ہے اور مذاکرات عوامی سطح پر نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ وحشی درندوں کے ساتھ، ظالم و فاسق، ملک دشمنوں کے ساتھ مذاکرات نہیں سختی کی جائے، جس کا نتیجہ ایک اور فوجی آپریشن کی صورت نکلتا ہے، ایسا بارہا ہوچکا ہے۔ موجودہ مذاکرات جو اس وقت پاکستان کے معروف دیوبندی علماء و مفتیان جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طالبان کے اساتذہ میں سے ہیں۔ موجودہ دیوبندی علماء میں نامور عالم دین مفتی تقی عثمانی کے علاوہ مولانا طیب پنج پیر والے (میجر عامر کے بھائی)، وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری حنیف جالندھری، مولوی انوار الحق(جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک) اور مفتی غلام الرحمان بھی شامل ہیں۔
چونکہ طالبان کی اکثریت چاہے ان کا تعلق طالبان کی کسی بھی شاخ، برانچ سے ہو، انہی پاکستانی مدارس میں تعلیم حاصل کرتی ہے، جو ان کے ہم مسلک اساتذہ نے قائم کر رکھے ہیں۔ دیوبندیوں کے یہ مدارس اس وقت بہت زیادہ تعداد میں قائم کئے گئے، جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا اور لاکھوں افغان ہجرت کرکے پاکستان پہنچ گئے۔ پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کے بچوں کے لئے مدارس قائم کئے گئے، جن کو بعد ازاں جہاد کے نام پر لڑایا گیا۔ یوں ایک طرف تو روس کے مقابلہ کے لئے افغان لوگوں میں جہاد کے مقدس نام پر ان کے جذبات سے بھرپور فائدہ اٹھایا، البتہ پاکستانی سماج میں یہ زہر کی صورت داخل ہوگئے کہ اب تک اس زہر کا اثر ہر پاکستانی اپنے رگ و پے میں محسوس کرتا ہے۔
طالبان اگرچہ شروع میں ایک ہی تھے، مگر بعد ازاں ان میں پھوٹ پڑتی رہی اور یہ گروہ در گروہ منقسم بھی ہوتے رہے، ان کی باگ ڈور مختلف قوتوں کے ہاتھوں میں رہی۔ یہ کئی ایک ممالک اور عالمی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر پاکستان کے بے گناہ و معصوم عوام کو اپنی وحشت و بربریت کا شکار کرتے آرہے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ جو دھڑے تحریک طالبان سے علیحدہ ہوگئے تھے، یا انھوں نے اپنے دھڑے قائم کیے تھے، ان تمام دھڑوں کا انضمام ہوگیا۔ یاد رہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان طالبان کی طرز پر پاکستان میں بھی تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی اور یہ تنظیم متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی۔ اپنی کارروائیوں کو قبول کرتی رہی، اس تنظیم کے سربراہ نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، مولانا فضل اللہ، خان سید سجنا اور دیگر کمانڈر رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تنظیم میں اختلافات بڑھتے گئے، جس وجہ سے یہ تنظیم دھڑا بندی کا شکار ہوگئی تھی۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور بعد میں جماعت الاحرار کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے والے احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگست 2015ء میں تحریک کے کچھ کمانڈروں کے تنظیم سازی کے عمل پر اختلافات تھے، جن کی وجہ سے اگست 2015ء کو جماعت الاحرار کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اس کے بعد جماعت الاحرار سے بھی کچھ لوگ علیحدہ ہوئے اور نومبر 2017ء کو حزب الاحرار کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس تنظیم سے جڑا حافظ گل بہادر گروپ پہلے ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد جنگ بندی پر راضی ہوچکا ہے۔ ان دیگر دھڑوں میں شہریار گروپ، گنڈہ پور گروپ، طارق گروپ اور باجوڑ، مہمند، محسود اور سوات سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل گروپ شامل ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت میں بھی عرفان صدیقی کی سربراہی میں یہ مذاکرات ہوئے تھے۔ اس وقت طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز شامل تھے۔ ان کے نام طالبان کی طرف سے دیئے گئے تھے، یہ مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار رہے، نتیجہ ایک اور آپریشن کی صورت نکلا۔ ماہرین افغان و قبائلی امور اور دہشت گردی پر مسلسل لکھنے والے سبھی صحافی اور معاملات کو گہرائی سے دیکھنے والے وارد لوگ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ وہی نکلنا ہے، جو اس سے قبل نکلتا رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں مذاکرات کے ذریعے خود کو سرنڈر نہیں کرتیں، بلکہ اپنی قوت میں اضافہ کرتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ کسی ایک قیادت اور رہبری میں جمع نہیں ہیں۔ حقیقت میں قبائلی ہیں، جو مختلف اقوام پر مشتمل لوگوں کا ایک سیٹ اپ ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے سقوط کے بعد جب اگست 2021ء میں افغان طالبان بر سر اقتدار آئے ہیں، پاکستانی طالبان بھی مضبوط، پہلے سے منظم، مربوط اور طاقت میں ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد یہ سرحد محفوظ ہو جائے گی، ان کی یہ خام خیالی اب تک ایک ڈراونے خواب کی مانند ثابت ہوئی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ تحریک طالبان افغان طالبان کی بیعت میں ہیں اور خود کو انہی کے مطیع کہتے ہیں۔ انہی کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے ہیں، انہی کی ثالثی ہو رہی ہے، مگر یہ عجیب ہے کہ پاکستانی ریاست کی میزبانی کا اتنے برسوں تک لطف اٹھانے والے افغان طالبان جن کی وجہ سے پاکستان کو بے شمار مشکلات درپیش رہی ہیں اور اب بھی عالمی سطح پر بھگت رہے ہیں، اپنے ان مہربانوں کی مہربانی اور لطف و کرم کا نظارہ بے گناہوں کے خون سے رنگین پاکستان کے بازار، مساجد و عبادت گاہوں میں آئے روز دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار، ریاست کے کرتا دھرتا ان دہشت گردوں کے بھونڈے مطالبات جنہیں کسی بھی طور پورا کرنا ممکن نہیں، سے مذاکرات کا کھیل کھیلنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔؟ تحریک طالبان کے لوگ خود کو قبائلی علاقوں کے وارث و مالک سمجھتے ہیں، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، جو لوگ ان علاقوں میں برسوں سے سیاسی و سماجی طور پر لوگوں کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں، ان کو ان طالبان سے خوف ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ آگئے تو انہیں قتل کر دینگے اور اپنا جاہلانہ کردار نبھائیں گے، جس سے علاقے ایک بار پھر دہشت گردی کا گڑھ بن جائیں گے، جو عالمی سطح پر قبول کرنا ممکن نہیں ہوگا، اس سے پاکستان کو بھی شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس کیساتھ ساتھ بہت سے حلقے یہ مطالبہ رکھتے ہیں کہ اگر تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اتنی کوششیں اور کاوشیں کی جاتی ہیں تو بلوچستان کے لئے کیوں نہیں کی جاتیں۔؟
یہ بھی ایک قابل غور نکتہ ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے بھی کچھ عرصہ سے طالبان انداز میں منظم و مربوط دہشت گردی شروع کر دی ہے، جس میں فدائی مشن بھی سامنے آئے ہیں۔ حتیٰ ایک بلوچ لڑکی جو شادی شدہ اور بچوں کی ماں تھی، اس نے کراچی میں جامعہ کراچی میں چائینیز پر خودکش دھماکہ کرکے ایک نئی سوچ کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ساتھ بھی ایسے ہی مذاکرات ہونے چاہیئے، جیسے طالبان کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اس سے قبل 100 قبائلی عمائدین کا ایک جرگہ افغانستان گیا تھا، طالبان کی دی گئی لسٹ میں سے بہت ہی اہم لوگوں کو چھوڑا گیا ہے اور انہیں افغان طالبان، جو ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، ان کے سپرد کیا گیا ہے۔ کیا بلوچ عسکریت و علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھی ایسا ممکن ہے، وطن کی فکر کرنے والوں کو اس بارے اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے ۔