زیارت آپریشن اور لاپتہ افراد کا مسئلہ

کرنل لائق بیگ کی بازیابی کیلئے زیارت کے قریب ریسکیو آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تنظیم کے مارے جانیوالے افراد کی شناخت ہوگئی ہے۔ 9 میں 5 افراد کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء لالنگو نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس انکشاف کی تصدیق کی اور مبینہ افراد کے دہشتگرد ہونیکا دعویٰ کیا۔ دوسری جانب بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے زیارت آپریشن کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم شہباز شریف سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ وائس آف مسنگ پرسنز کیجانب سے احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔

0 458

تحریر: اعجاز علی

عید الاضحیٰ کی چھٹیاں گزارنے کے قصد سے جب پاک فوج کے افسر لیفٹیننٹ کرنل لائق مرزا بیگ نے اپنے خاندان کے ہمراہ بلوچستان کے خوبصورت شہر زیارت کا رخ کیا تو راستہ میں کالعدم دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کا راستہ روکا۔ دہشتگردوں نے کرنل لائق بیگ اور ان کے چچا زاد بھائی کو اغواء کر لیا اور خاندان کے باقی افراد کو چھوڑ کو فرار ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اغواء کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا اور جس مقام سے کرنل لائق بیگ کو اغواء کیا گیا تھا، اس کے قریب ہی دہشتگردوں کی تلاش شروع کر دی گئی۔ جمعہ کو کرنل لائق بیگ کی لاش ملنے کی خبر آگئی اور کچھ دیر بعد پاک فوج نے بھی فوجی افسر کی موت کی تصدیق کر دی۔ کرنل لائق بیگ کے بعد ان کے کزن عمر جاوید کی لاش بھی مل گئی، جنہیں دہشتگرد تنظیم کے افراد نے جانبحق کر دیا تھا۔

آئی ایس پی آر نے آپریشن کے بعد اپنے بیان میں زیارت آپریشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریسکیو آپریشن کے دوران زیارت کے قریب کالعدم تنظیم کے متعدد افراد کا سراغ لگایا گیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے دہشتگردوں کی آماجگاہ کو گھیر کر وہاں موجود دہشتگردوں پر حملہ کیا تو دونوں جانب سے فائرنگ شروع ہوئی اور دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے حوالدار سر پر گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تنظیم کے 9 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ہلاک شدہ مبینہ افراد اور ان کے ہمراہ اسلحہ و گولہ بارود کی تصاویر بھی میڈیا والوں کو دے دی گئیں۔ جب یہ تصاویر سامنے آئیں تو سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر اس واقعہ سے متعلق ایک نئی بحث چھڑ گئی۔

سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر حکیم بلوچ نامی صحافی نے مارے جانے والے افراد کی لاشوں کی تصاویر اپلوڈ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ مبینہ افراد کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے پہلے اغواء کیا گیا اور بعد میں انہیں قتل کرکے زیارت میں پھینک دیا گیا۔ حکیم بلوچ نے کہا کہ "ان افراد کے کپڑے، صحت کی حالت اور ان کا حلیہ یہ ثابت کرنے کیلے کافی ہے کہ انہیں اغواء کیا گیا تھا۔” اس کے ساتھ ہی حکیم بلوچ نے کہا کہ اگر ان کا تعلق کالعدم دہشتگرد تنظیم سے ہوتا تو تنظیم ان افراد کے مارے جانے کی تصدیق کر لیتی اور ان پر فخر کرتی، جیسا کہ وہ ماضی میں کرتی آئی ہے۔ حکیم بلوچ کے دعوے کے بعد بلوچستان سے اغواء ہونے والے افراد کے لواحقین نے بھی مارے جانے والوں میں سے بعض افراد کی شناخت کی اور ریاست کو انہیں مارنے پر ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بھی اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم سے جوڈیشل کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ مارے جانے والے 5 افراد ریاست کی حراست میں تھے۔ اختر مینگل کے مطابق ان افراد کو جبری طور پر اٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اغواء کا ثبوت بھی ان کے پاس ہے کہ کس آدمی کو کب، کس دن، کہاں سے اٹھایا گیا تھا اور پھر اس کو رپورٹ بھی کیا گیا۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے افراد کے لواحقین مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ زیارت آپریشن میں مارے گئے افراد کی جوڈیشل انکوائری کی جائے اور تحقیقات کے بعد رپورٹ سب کے سامنے پیش کی جائے۔ اختر مینگل نے یہ انکوائری خاص طور پر جسٹس فائز عیسیٰ سے کروانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی مشیر داخلہ نے بھی زیارت آپریشن کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے زیارت آپریشن میں مارے جانے والے 9 افراد میں سے 5 افراد کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود ہونے کی تصدیق کی۔ صوبائی مشیر داخلہ نے میڈیا کو بتایا کہ پاک فوج اور ایف سی نے مشترکہ طور پر 5 روز آپریشن جاری رکھا۔ جس میں دہشتگرد تنظیم کے 9 افراد مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے 5 افراد کی شناخت شمس ساتکزئی، انجینئر ظہیر، شہزاد احمد، مختیار بلوچ اور سلیم کریم بخش کے نام سے ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مارے گئے دہشتگرد زیارت اور ہرنائی کے پہاڑی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات، مانگی ڈیم، کوئلے کی کانوں اور دیگر دہشتگردی کے واقعات میں ملوث تھے۔

مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے دوران یہ الزام بھی لگایا کہ وائس آف مسنگ پرسنز نے ان مارے گئے افراد کے نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل کئے تھے۔ انہوں نے کہا "ریاست پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ لاپتہ افراد دراصل پہاڑوں میں ریاست مخالف جنگ میں مصروف ہیں۔ جس کی تصدیق نہ صرف ان کارروائیوں سے ہوتی ہے بلکہ پی سی گوادر، کراچی اسٹاک ایکسچینج، نوشکی اور پنجگور جیسی دہشتگردانہ کارروائیوں میں بھی وہ لوگ ملوث تھے، جن کے نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل تھے۔” مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں حکومت بلوچستان کا بیانیہ واضح طور پر سب کے سامنے رکھ دیا، جس کے بعد وائس آف مسنگ پرسنز کی جانب سے صوبے بھر میں احتجاجی مظاہروں کے آغاز کی کال دی گئی ہے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.