سندھ میں لسانی فسادات کی کوشش، سیاسی و قوم پرست رہنما سامنے آگئے

سندھ کے کئی اضلاع میں لسانی بنیادوں پر کشیدگی کے پیش نظر مختلف سیاسی رہنماؤں نے متفقہ طور پر پرامن رہنے کی اپیل کی اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ شرپسند عناصر کو صوبے کی سماجی ہم آہنگی پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہ دیں۔ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی، ایم ڈبلیو ایم سمیت متعدد سیاسی جماعتوں اور قوم پرست رہنما جلال محمود شاہ اور ایاز لطیف پلیجو نے بیانات جاری کرتے ہوئے سندھیوں اور پشتونوں پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں

0 520

تحریر: ایم رضا

حیدرآباد میں ہونے والے ایک چھوٹے سے جھگڑے کو لسانیت کا رنگ دے کر سندھ میں رہنے والوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے اور جھگڑا کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ہوٹل پر جھگڑے کے دوران نوجوان بلال کاکا کے قتل پر کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے، مشتعل افراد نے الآصف اسکوائر کے قریب گاڑی کو آگ لگا دی اور پولیس ہی کا اسلحہ چھین کر فائرنگ کی۔ ہنگامہ آرائی کے الزام میں 40 افراد کو گرفتار کیا گیا، سوشل میڈیا پر افسوس ناک مناظر کی ویڈیوز دیکھنے میں آئیں، مشتعل افراد نے کہیں گاڑی روک کر لوگوں کو دھمکایا، تو کہیں دکانیں بند کروائی گئیں۔ کراچی "منی پاکستان” ہے جو پورے ملک سے آنے والوں کو اپنے اندر سموتا ہے۔ تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت نے ایسے تمام واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ پولیس کے مطابق سہراب گوٹھ اور اطراف میں حالات کنٹرول میں ہیں، جبکہ 12 جولائی کو ہوٹل پر جھگڑے کے دوران نوجوان بلال کاکا کے قتل کے بعد حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں ہوٹل بند ہیں۔

بلال کاکا کے قتل کے بعد سندھی قوم پرست کارکنان کے ردعمل کے بعد بلوچستان کے علاقے ژوب میں پختون کمیونٹی کی جانب سے سندھی کمیونٹی کے افراد کو گاڑیوں سے اتار کر ردعمل میں تذلیل کرتے ہوئے واپس سندھ جانے کو کہا گیا اور پھر سہراب گوٹھ میں شرپسندوں کی جانب سے خواتین سمیت شہریوں کو پریشان کرنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کا واقعہ پیش آیا۔ پختون کمیونٹی کے اس ردعمل کے بعد پھر راتوں رات قوم پرست کارکنان نے نوناری سی این جی پر قومی شاہراہ کو مکمل بند کردیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی جبکہ مسافروں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ صورتحال میں بھی سندھ بھر میں پختون اور افغان کمیونٹی کی ہوٹلوں اور دیگر کاروبار بند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں بشمول سکرنڈ، مورو، حیدرآباد، لاڑکانہ، شہدادپور، سکھر اور نوشہرو فیروز میں گزشتہ دو دن سے پختون اور افغان کمیونٹی کی چائے کی دکانیں اور کاروبار بند ہے جبکہ مشتعل افراد نے کئی دکانوں کو نقصان بھی پہنچایا۔ سندھ بھر میں متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور جلوس بھی نکالے جا رہے ہیں اور چائے کے دکانوں سمیت دیگر کاروبار کو بھی جبری طور پر بند کروایا جا رہا ہے۔

ادھر حیدر آباد واقعے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے متعلق قائم مقام گورنر سندھ آغا سراج خان درانی سے شفیع اللہ کی قیادت میں پختون برادری کے 19 رکنی وفد نے ملاقات کی اور اس حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں قائم مقام گورنر آغا سراج درانی نے کہا کہ سندھ صوفیا اور اولیائے کرام کی سرزمین ہے، سندھ میں تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں اور پختون برادری سندھ میں مختلف کاروبار سے منسلک ہے اور صوبے کی معیشت میں ان کا اہم کردار ہے۔ آغا سراج درانی نے کہا کہ چند شرپسند عناصر صوبے میں لسانی فساد کروانے کی سازش کر رہے ہیں، کسی بھی انسان کا قتل انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت فعل ہے لیکن اسی طرح کسی کی املاک کو نقصان پہنچانا اور جلاؤ گھیراؤ بھی قابل مذمت عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں بسنے والی تمام قومیتوں سے اپیل ہے کہ وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں، افواہوں پر کان نہ دھریں، حکومت امن و امان برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔

سندھ کے کئی اضلاع میں لسانی بنیادوں پر کشیدگی بھڑک اٹھی ہے، جس کے پیش نظر مختلف سیاسی رہنماؤں نے متفقہ طور پر پرامن رہنے کی اپیل کی اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ شرپسند عناصر کو صوبے کی سماجی ہم آہنگی پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہ دیں۔ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی، ایم ڈبلیو ایم سمیت متعدد سیاسی جماعتوں اور قوم پرست رہنما جلال محمود شاہ اور ایاز لطیف پلیجو نے بیانات جاری کرتے ہوئے سندھیوں اور پشتونوں پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، انہوں نے حکومت سے کشیدگی کم کرنے کے لئے فوری کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ امن و امان کی صورتحال مزید بگڑنے سے روکنے کے لئے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے صدر قومی عوامی تحریک ایاز لطیف پلیجو اور صدر اے این پی سندھ شاہی سید سے رابطہ کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ لسانی تصادم کے خاتمے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں جھگڑے کے دوران ایک شخص کی ہلاکت کے بعد سندھ میں لسانی اور سیاسی تناؤ میں اضافے پر سخت تشویش ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ واقعے کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی جائے اور سندھ حکومت صوبے میں جرائم اور تشدد پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرے۔ ترجمان کے مطابق موجودہ حالات میں حکام کے علاوہ پاکستان کی تمام ترقی پسند آوازوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ باعثِ تفریق یا نسل پرستانہ بیانات سے احتراز کریں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی بلال کاکا کے قتل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے لسانی تناؤ کے حقائق معلوم کرنے کے لئے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.