ضمنی الیکشن، نون لیگ بمقابلہ پی ٹی آئی

سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین سمیت متعدد مذہبی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی حمایتی جبکہ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، اسلامی تحریک پاکستان، مرکزی جمعیت اہلحدیث مسلم لیگ نون کی انتخابی ساتھی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی اور تحریک لبیک اپنی الگ الگ حیثیت میں میدان میں ہیں اور یقیناً دائیں بازو کے ووٹ کو تقسیم کرکے مسلم لیگ نون کو نقصان پہنچائیں گی۔

0 431

تحریر: نذیر بھٹی

پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر 17 جولائی کو ہونیوالے ضمنی انتخابات مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ دونوں جماعتوں کی عزت کا مسئلہ ہونے کیساتھ اس کے انتخابی نتائج آئندہ عام انتخابات کیلئے ساکھ اور عوام کے سامنے جانے کا معاملہ بھی گھمبیر ہوگا۔ یہ تمام نشستیں وہ ہیں، جو تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھیں۔ غالباً سوائے ایک نشست پی پی 158 کے تمام نشستوں پر مسلم لیگ نون نے تحریک انصاف کے سابق ارکان اسمبلی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ ایک بات حقیقت ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے راہ فرار اختیار کرنے کے تمام حربوں میں ناکامی اور سابق وزیراعظم کا درجہ پانے کے بعد عمران خان سکون سے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے جلسوں کے ذریعے حکومت پر دباو بڑھایا، جو 25 مئی کے ناکام لانگ مارچ کے باوجود اب بھی برقرار ہے۔ وہ تمام معیارات جو ضمنی الیکشن جیتنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں، اس وقت مسلم لیگ نون کے حق میں نظر آتے ہیں۔ وفاق اور پنجاب میں حکومت، تمام امیدوار جو 2018ء کے الیکشن میں انہیں نشستوں سے جیتے تھے، اب مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مسلم لیگ نون کو اگر بظاہر حمایت نہیں تو مخالفت بھی نہیں ہے۔ پنجاب کی ریاستی مشینری مسلم لیگ نون کی حمایت میں ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات اور کام، اور اب تو پیٹرول ڈیزل بھی سستا ہوگیا ہے۔ البتہ کچھ انتخابی حلقوں میں مسلم لیگ نون کے گذشتہ عام انتخابات میں امیدوار، نئے لیگی امیدواروں سے ہارنے والے آزاد حیثیت میں میدان میں موجود ہیں اور اپنی ہی جماعت کیلئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ پھر دیہاڑی دار لوگوں کو بھی مشکلات ہیں، جنہوں نے ساڑھے تین سالوں میں اپنے حلقے کے عوام کی طرف توجہ نہیں دی اور ان سے مختلف محکموں میں تعیناتیوں اور تبادلوں کیلئے پیسے وصول کرتے رہے۔ پٹواریوں سے بھتہ لیتے رہے، البتہ یہ حقیقت ہے کہ 20 نشستوں پر 10 ارکان وہ بھی کھڑے ہیں، جنہوں نے 2018ء کا الیکشن آزاد حیثیت میں جیت کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، ورنہ پنجاب میں پارٹی پوزیشن کے اعتبار سے واضح اکثریت مسلم لیگ نون کے پاس تھی، حسب روایت مذہبی جماعتیں بھی قومی دھارے کی سیاسی قوتوں کیساتھ اپنے اپنے سیاسی مفادات کے مطابق کھڑی ہیں۔

سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین سمیت متعدد مذہبی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی حمایتی جبکہ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، اسلامی تحریک پاکستان، مرکزی جمعیت اہلحدیث مسلم لیگ نون کی انتخابی ساتھی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی اور تحریک لبیک اپنی الگ الگ حیثیت میں میدان میں ہیں اور یقیناً دائیں بازو کے ووٹ کو تقسیم کرکے مسلم لیگ نون کو نقصان پہنچائیں گی۔ یہ بات حقیقت ہے کہ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن اور حکومت کو دباو میں رکھا ہے۔ عمران خان اپنی تمام تقریروں میں اداروں کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی طرف سے تنقید کے نتیجے میں دفاعی پوزیشن پر رہی، لیکن جو حالات تحریک انصاف نے پیدا کئے، ایسے پہلے نہیں تھے۔

انتخابی مہم اختتام کے قریب ہے، عمران خان کے تمام جلسے متاثر کن رہے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ نون جلسوں کے حوالے سے، اس عوامی قوت کا مظاہرہ نہیں کرسکی، جو پی ٹی آئی نے کیا۔ مسلم لیگ نون نے ڈور ٹو ڈور مہم، جبکہ تحریک انصاف نے پریس کانفرنسوں پر زیادہ زور دیا ہے۔ 17 جولائی کو عوام کس جماعت کو اکثریت دلا کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حقدار قرار دیتے ہیں، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ مقابلہ سخت ہے۔ کمزور انتخابی مہم دیکھتے ہوئے پنجاب اور وفاق سے مسلم لیگ نون کے وزراء کو مستعفی ہونا پڑا، تاکہ مہم چلا سکیں۔ البتہ ایک بات جو پاکستان کا سنجیدہ طبقہ محسوس کر رہا ہے، وہ یہ ہے کہ گذشتہ تقریباً ایک دہائی سے ہماری سیاست میں جو تناو پیدا ہوا ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ بدتہذیبی، توہین آمیز بیانات کیساتھ سیاسی مخالفین کی ذاتی کمزوریوں کو بھی جلسوں میں اچھالا گیا۔ جو کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں۔ ایسی تلخ باتیں ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان بھی ہوتی تھیں، مگر اس حد تک اخلاقی حدود کبھی بھی پار نہیں ہوئیں، جو ان دنوں میں دیکھنے میں آئیں۔ نئی سیاسی مخلوق سے معاشرتی رویوں کو خطرات درپیش ہیں۔ سیاسی تربیت ضروری ہے۔ سیاست کو بدنام کرنے کا ذمہ دار خود سیاسی رہنماوں کا غیر سیاسی رویہ ہے۔

الیکشن آئے گا، چلا جائے گا، مگر جو زہر ہم اپنی آئندوں نسلوں کے ذہنوں میں گھول رہے ہیں اور جو رویئے ہم نوجوانوں کے بنا رہے ہیں، اس کے منفی اثرات آنیوالے دنوں میں بھی سامنے آئیں گے۔ اس لئے ہم الیکشن میں ایسی گفتگو کریں کہ ہمیں کل مخالفین کیساتھ بیٹھنا پڑے تو کم از کم ایک دوسرے کا سامنا کرسکیں۔ اختلاف رائے برقرار کھتے ہوئے بھی پارلیمنٹ کے اندر مخالفین کیساتھ بھی بیٹھا جا سکتا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی کاوش سے ”میثاق جمہوریت“ جیسی تاریخی دستاویز نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہوا، ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگی گئی۔ پھر اٹھارہویں ترمیم کی شکل میں اس کے اصلاحاتی پہلو آئین میں موجود ہیں۔ اسی طرح سے ایم کیو ایم، شیخ رشید اور مسلم لیگ قاف کی قیادت کے بارے میں عمران خان ماضی میں جو الفاظ استعمال کرتے رہے، پھر حکومت بنانے کیلئے انہیں کیساتھ بیٹھنا پڑا۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب سے الیکشن کمیشن کا کردار بہت متحرک نظر آتا ہے، کیونکہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جاری کئے گئے نوٹس اور جرمانوں کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ لیکن صرف ان جرمانوں سے ہی کام نہیں بنے گا، جرمانے کی رقم کو زیادہ کرنا ہوگا۔ دعاگو ہیں کہ سیاست میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم جیسی سیاسی شائستگی پیدا کرسکیں۔ 17 جولائی کا الیکشن بغیر تشدد کے رونماء ہو اور ہم مہذب قوموں کی صف میں شامل ہو جائیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.