نئی تشہیراتی مہم
ایران کیخلاف ایرانو فوبیا کی حالیہ لہر سے ایسا لگتا ہے کہ ایرانو فوبیا کے منصوبے کو بڑھانے اور ایران کیساتھ کشیدگی بڑھانے کے نتیجے میں صیہونی حکومت جہاں ایران ترکی تعلقات کو کشیدہ کرنے کی خواہاں ہے، وہاں فلسطین کے مسئلے کو جو بائیڈن کے دورے کے ایجنڈے سے عمومی طور پر ہٹانا چاہتی ہے اور اسے ایران کیطرف موڑ دینا چاہتی ہے۔ البتہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کیخلاف تشہیراتی مہم ایسے عالم میں عروج پر ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان بھی بہت جلد ترکی کا دورہ کرنیوالے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ "یائیر لاپیڈ” نے ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران آنے والے ہفتوں میں استنبول میں مقیم صیہونی شہریوں کیخلاف حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لہذا صیہونی شہریوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ترکی کے درالحکومت نہ جائیں اور اس شہر سے جلد از جلد نکل جائیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا ذکر کیے بغیر بزعم خود دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جو کوئی بھی اسرائیلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے، وہ اس کی قیمت ادا کرے گا اور وہ جہاں بھی ہوں گے، ہم ان کا پیچھا کریں گے۔ صیہونی وزیر خارجہ کی دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب حالیہ ہفتوں میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں اور خطے کے دیگر ممالک میں ایسے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے صیہونی مفادات کو براہ راست نشانہ بنایا اور مغربی و صیہونی میڈیا کی کوششوں کے باوجود اس سے متعلق خبریں لیک ہوئیں اور صیہونیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اسرائیلی حکام کے دعووں کے باوجود وہ ان واقعات کو روک نہ سکے۔
حالیہ دنوں میں صیہونی حکام اور ان کے ذرائع ابلاغ نیز صیہونی حلقوں کے قریبی مغربی اور عرب میڈیا نے ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس تشہیراتی مہم میں صیہونی لابی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران سپاہ پاسداران کے کئی عہدیداروں کے قتل کا بدلہ اسرائیل سے لینا چاہتا ہے اور اس کے لئے ترکی میں موجود اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا جائیگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیل نے واضح طور پر سپاہ پاسداران کے کئی عہدیداروں کے قتلوں میں اپنے کردار کی تصدیق کی ہے اور اب اسرائیلی شور شرابہ کر رہے ہیں کہ ترکی میں اس کے شہریوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ صیہونی حکومت اس قسم کے پروپگینڈے کرکے کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ پروپیگنڈا درحقیقت کئی اہداف کا حامل ہے۔ ان مقاصد میں سے ایک صیہونی دہشت گرد حکومت اپنے پرتشدد اور دہشتگردانہ چہرے کو ایک پرامن اور مظلوم بنانے کی خواہشمند ہے۔
تاہم بینیٹ انتظامیہ، نیتن یاہو کے ساتھ اپنی اندرونی دشمنی کے جواب میں اور نیتن یاہو کے پروپیگنڈے کے سامنے خود کو کامیاب ثابت کرنے کے لیے واضح طور پر ایران میں ہونے والے قتل میں اپنی حکومت کے کردار کی تصدیق کرچکی ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کو نیتن یاہو نے نااہل قرار دیا ہے، جواب میں بینیٹ نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے دشمن نمبر ایک یعنی ایران کے خلاف عملی اقدامات کر رہا ہے اور اس میں سپاہ پاسداران کے افراد کے خلاف حالیہ کارروائیاں شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت ایک طرف اپنے آپ کو مضبوط ثابت کرنے کے لئے ایرانی پاسداروں کے قتل کی کارروائیوں کو قبول کر رہی ہے اور دوسری طرف ایران کے جوابی حملوں سے بچنے کے لئے اس طرح کے پروپیگنڈے کرکے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایرانی ترکی میں ہمارے شہریوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیل ایران کی جوابی کارروائی سے خوفزدہ ہے اور پیش بندی کے لئے اپنے حامیوں سمیت مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
اس نقطہ نظر سے صیہونی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو ایک طرح کے تضاد کا سامنا ہے۔ حالیہ پروپیگنڈا مہم کا آغاز اس منظر نامے کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ موساد ترکی میں صیہونی حکومت کے کچھ ارکان کو قتل کر دے اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اس کا زمہ دار ایران کو قرار دے دے۔۔ ان منظرناموں سے ہٹ کر صیہونی حکومت کی سیاسی نقل و حرکت اور پروپیگنڈے کے کئی مخصوص اہداف قابل فہم ہیں۔ اس سلسلے میں جب بھی وہ خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور معمول پر لانے کی طرف بڑھتی ہے تو وہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت ترکی تک کو ایران سے دور کرنے میں لگ جاتی ہے، جس کے لئے ایرانو فوبیا ضروری ہے۔ اس نقطہ نظر سے حالیہ پروپیگنڈے کا مقصد ترکی اور ایران کے تعلقات میں خلل ڈالنا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت نہ صرف ایران بلکہ ترکی کے خلاف بھی سازش کر رہی ہے، جس کے لیے ترک حکام کو چوکسی کی ضرورت ہے۔ ترک میڈیا کو بھی صیہونی حکومت کے پروپیگنڈے کا مناسب جواب دینا چاہیئے۔
ترکی کی خارجہ پالیسی ایک گورکھ دھندے کی مانند ہے، جس کا صحیح ادراک اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس ملک کی قیادت ایک طرف خلافت عثمانیہ کے احیاء کی خواہشمند ہے تو دوسری طرف یورپی یونین کا ممبر بننے کے لئے ہلکان ہو رہی ہے۔ ایک طرف معتدل اسلام کی حمایت کرتی ہے تو دوسری طرف شام میں تکفیری دہشتگردوں کی مکمل پشتپناہی کو بھی اپنا دینی فریضہ سمجھتی ہے۔ ترکی کو ایک طرف علاقے بالخصوص شام کے حالات کو اپنے حق میں موڑنے کے لئے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں انقرہ کی غلط پالیسیوں کے باعث اسے علاقے کے مسلمانوں اور ممالک کے خود سے دور ہو جانے کی مشکل کا بھی سامنا ہے۔ ترکی اپنے اقصتادی مسائل پر قابو پانے کے لئے اپنی سرحدوں کے اندر سے یورپی ممالک تک انرجی کے لئے ٹرانزٹ راستہ قائم کرنے کا خواہاں ہے، جو صیہونی حکومت کی مدد اور اس کے زير اثر اقتصادی ذرائع کی مالی حمایت سے ہی ممکن ہے۔
ان حالات میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا ترکی کا اشارہ قابل پیشگوئي ہے، لیکن موجودہ صورت حال مین اسے موساد کی کارروائیوں اور ایران کو کسی مسئلے میں الجھانے کی سازشوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ صیہونی حکومت کا ایک اور مقصد امریکی صدر جوبائیڈن کو مقبوضہ فلسطین کے دورے کے دوران فلسطینی مسائل کی بجائے ایرانو فوبیا منصوبے پر مرکوز کرانا ہے۔ بائیڈن کے دورہ اسرائیل اور سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ بائیڈن حکومت نے دو ریاستی حل کی منصوبہ بندی کی طرف ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھایا، جو اس کے انتخابی نعروں میں سے ایک تھا۔ دوسری طرف سعودی عرب کا دورہ انتخابی وعدوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ جمال خاشقچی کے قتل کے تناظر میں بھی بائیڈن کے بیانات اب بھی میڈیا مین موجود ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ سعودی حکومت کے انسان دشمنانہ اقدامات کی وجہ سے بن سلمان سے ملاقات نہیں کریں گے۔
ایران کے خلاف ایرانو فوبیا کی حالیہ لہر سے ایسا لگتا ہے کہ ایرانو فوبیا کے منصوبے کو بڑھانے اور ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے نتیجے میں صیہونی حکومت جہاں ایران ترکی تعلقات کو کشیدہ کرنے کی خواہاں ہے، وہاں فلسطین کے مسئلے کو جو بائیڈن کے دورے کے ایجنڈے سے عمومی طور پر ہٹانا چاہتی ہے اور اسے ایران کی طرف موڑ دینا چاہتی ہے۔ البتہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کے خلاف تشہیراتی مہم ایسے عالم میں عروج پر ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان بھی بہت جلد ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں۔