شدید انتقام کا خوف
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کی جانب سے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ ایک یقینی اور اٹل فیصلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی امریکہ نے ایران پر شدید سیاسی اور اقتصادی دباو برقرار رکھا ہوا ہے اور اسے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے سے دستبردار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی حکام مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایران ہر قیمت پر بغداد ایئرپورٹ پر انجام پانے والے مجرمانہ اقدام میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے پر تلا ہوا ہے اور اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے۔ لہذا وہ عالمی سطح پر ایران فوبیا پھیلا کر خود کو اس کی آڑ میں بچانے کے درپے ہیں۔ امریکی حکمران جگہ جگہ ایران کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یوں ایران پر دباو ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں
تحریر: آرش میری خانی
ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں شامل امریکہ کے سابق وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے حال ہی میں سعودی عرب کے ٹی وی چینل العربیہ کو ایک انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے دبے لفظوں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے سابق سربراہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے تہران کے جوہری پروگرام اور ایران کے بارے میں جو بائیڈن حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں اظہار خیال بھی کیا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے مشترکہ تعاون سے انجام پائی ہے لیکن جو بات اہم وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ کا رکن ہونے کی حیثیت سے مائیک پمپئو کا اعتراف ہے.
مائیک پمپئو نے اسی طرح یہ بھی کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد ایران کے ساتھ جنگ کا خطرہ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ العربیہ نیوز چینل کے ساتھ مائیک پمپئو کا یہ انٹرویو شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی بزدلانہ دہشت گرد کاروائی کے بارے میں اہم حقائق واضح کرتا دکھائی دیتا ہے۔ العربیہ چینل، جو خطے اور عالمی میڈیا میں ایران کے خلاف شدت پسندانہ موقف اختیار کرنے میں مشہور اور معروف ہے، اس بار بغداد ایئرپورٹ پر انجام پانے والے مجرمانہ واقعے میں ملوث ایک اصلی مہرے کے پاس گیا تاکہ اس کی زبان سے سعودی عبری امریکی ڈیتھ اسکواڈز کے مجرمانہ اقدامات کی وضاحت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایران فوبیا پر مبنی سرگرمی بھی انجام دے سکے۔ یہ اقدام دراصل امریکی صدر کے دورہ ریاض کے قریب ایران فوبیا کی فضا پھیلانے کی ایک کوشش بھی ہے۔
سعودی ذرائع ابلاغ ایران فوبیا پر مبنی فضا پیدا کر کے امریکی حکمرانوں کو ایران سے درپیش ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مزید مراعات فراہم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جب بھی ایران دنیا کے اہم ممالک کے ساتھ کسی معاہدے کی جانب آگے بڑھتا ہے تو سعودی حکمران حرکت میں آ جاتے ہیں اور اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماضی میں مغربی ممالک اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کے قریب سابق سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کی سرگرمیاں سب کو اچھی طرح یاد ہیں۔ اس کی اصل وجہ سعودی حکمرانوں کا ایران کی ہر قسم کی ترقی اور اثرورسوخ میں اضافے سے شدید خوفزدہ ہونا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں بھی سعودی حکمرانوں نے "عرب نیٹو” جیسا تمسخر آمیز منصوبہ پیش کیا تھا اور یوں امریکی صدر کو خریدنے کی کوشش کی تھی۔
مائیک پمپئو جب العربیہ چینل کو انٹرویو دے رہے تھے تو ایک طرف وہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیے جبکہ دوسری طرف وہ ایران کی جانب سے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لینے کی دھمکی کے نتیجے میں اپنا خوف و ہراس بھی نہ چھپا پائے۔ انہوں نے کئی بار ایران کی جانب سے ممکنہ انتقام کی جانب اشارہ کیا اور یہ دعوی بھی کیا کہ انہیں ٹویٹر کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ایران ضرور شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لے گا! ان کی یہ بات اس لئے بہت عجیب دکھائی دیتی ہے کیونکہ خود ایران کے کئی اعلی سطحی سیاسی اور فوجی عہدیدار کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکے ہیں کہ وہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ ضرور لیں گے۔ ایسے میں ٹویٹر کا حوالہ دینا عجیب دکھائی دیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کی جانب سے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ ایک یقینی اور اٹل فیصلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی امریکہ نے ایران پر شدید سیاسی اور اقتصادی دباو برقرار رکھا ہوا ہے اور اسے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے سے دستبردار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی حکام مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایران ہر قیمت پر بغداد ایئرپورٹ پر انجام پانے والے مجرمانہ اقدام میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے پر تلا ہوا ہے اور اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے۔ لہذا وہ عالمی سطح پر ایران فوبیا پھیلا کر خود کو اس کی آڑ میں بچانے کے درپے ہیں۔ امریکی حکمران جگہ جگہ ایران کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یوں ایران پر دباو ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
مائیک پمپئو نے امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان چھوڑنے کے بعد ایک ہی کام سنبھال رکھا ہے اور وہ ایران فوبیا اور ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ انہیں جہاں سے بھی زیادہ پیسے ملتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں اور ایران کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ پیسے رجوی فرقے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی جانب سے دیے جا رہے ہیں یا آل سعود رژیم کی جانب سے پیٹرو ڈالرز میں سے فراہم ہو رہے ہیں۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ شہید قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ اٹل اور یقینی ہے اور یہ ایران کا مسلمہ حق بھی ہے۔ بین الاقوامی قانون بھی اس کی حمایت کرتا ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر حتی جو بائیڈن کی حکومت بھی سپاہ پاسداران کے خلاف پابندیاں ختم کرنے پر راضی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہید قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ یقینی سمجھتے ہیں