استاد کی ایک شاباش

استاد کو قوم کا معمار کہا گیا ہے۔ قوموں اور معاشرے کی ترقی ّ اور تنزّلی میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ استاد کی تشویق اور شاباش ہی ہوتی ہے، جو شاگرد کو ’’اعلٰی علیِّین‘‘ میں لے جاتی ہے اور ’’اَسفلَ سافِلین‘‘ میں بھی۔ اگر یہ شاباش مثبت کام کیلئے ہو تو مولوی میر حسن ؒ کے مکتب سے علامہ اقبالؒ جیسے شاگرد پروان چڑھتے ہیں۔ استاد کی تشویق، شاباش اور ڈھارس ہی ہوتی ہے (یہ مثبت اور منفی دونوں جہات میں اپنا اثر رکھتی ہے)۔ یہ ہوتی تو ایک ہی جملے پر مشتمل ہے ’’تم کرسکتے ہو‘‘ لیکن نہیں معلوم اس ایک جملے میں کتنی طاقت ہوتی ہے کہ جو شاگرد کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہے اور اگر شاگرد کے ذہن میں یہی بات ڈال دی جائے کہ یہ تمہارے بس کا روگ نہیں ہے، تم نہیں کرسکتے، تو پھر اِس جملے سے رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے۔

0 506

تحریر: مقدر عباس

تختۂ دار پر موت کے منتظر شخص سے اس کی آخری خواہش کا سوال کیا گیا تو آواز آئی کہ مجھے ماں ملوائی جائے۔ ماں کو سامنے لایا گیا۔ سب نگاہیں منتظر ہیں کہ بیٹے کی زندگی کی آخری گھڑیاں ہیں اور اس موقع پر اللہ ہی جانے اس نازک رشتہ کے کیا احساسات ہوں گے۔ سکوت ٹوٹا، آواز آئی میری ماں کو میرے قریب لایا جائے۔ آخری لمحات ہیں، جو بھی خواہش ہے سر آنکھوں پر، ماں قریب پہنچ گئی۔ بیٹے نے کہا: ذرا اپنی زبان میرے منہ میں رکھیۓ۔ خواہش کا پورا کرنا تھا کہ ایک چیخ بلند ہوئی، لوگوں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ منظر عجیب تھا، سب لوگ انگشت بدنداں تھے کہ ہو کیا گیا کہ اتنے میں ایک طرف سے غصے سے لبریز صدا بلند ہوئی؛ اے بدبخت موت کی دہلیز پر آخری لمحات میں تو کوئی کارِ خیر انجام دے جاتا۔ تو نے کیا کر ڈالا، اپنی ماں کی زبان کاٹ ڈالی۔ اتنا سننا تھا کہ وہ شخص گویا ہوا۔

اے لوگو! میرے بچپن کے دن تھے۔ اچھے، بُرے کی تمیز نہیں تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں ہمسائے کے گھر سے ایک انڈہ چوری کرکے لایا اور وہ میں نے ماں کو پیش کیا۔ میری ماں بہت خوش ہوئی، اس نے مجھے ایک شاباش دی اور میں پھولے نہیں سما رہا تھا کہ میں نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ دن گزرتے گئے، میں اپنے کام میں آگے بڑھتا گیا۔ پھر مرغی، ایک دن بکری اور اسی طرح میں ایک ایک قدم آگے بڑھاتا گیا۔ آخری بار یہ ہوا کہ میں اونٹ چوری کر رہا تھا کہ مالک کو خبر ہوگئی، اس نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی، میں نے اُس پر وار کیا، وہ قتل ہوگیا اور آج اس جرم کی سزا میں، مَیں تختہ دار پر ہوں۔ اگر یہ زبان اس وقت مجھے بُرے کام پر شاباش نہ دیتی تو میں آج یہاں نہیں کہیں اور ہوتا۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور اس میں جو سبق سکھائے جاتے ہیں، وہ پتھر پر لکیر ہوتے ہیں اور انسانی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی انسانیت کی کی بنیادیں ہیں اور انسانیت کی پوری عمارت کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ بقول شیخ سعدیؒ

خشت اول چون نهد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

اگر معمار عمارت کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے گا، تو وہ عمارت آسمان کی بلندی تک ٹیڑھی ہی جائے گی۔ اگر پہلی درسگاہ میں ہی عزت، شرافت اور نجابت کا درس دیا جائے تو یہ شاگرد بڑا ہونے کے بعد دنیا کے طوفانوں کے سامنے ڈگمگاتا نہیں بلکہ ’’ھَیھَات مناّالزلّۃ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ذلّت کی زندگی کو چھوڑ کر عزت کیساتھ موت کو گلے لگاتا ہے اور یہی کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ جس گود میں پروان چڑھا ہوں، اس نے مجھے گھُٹیّ میں عزّت پلائی ہے۔ ہمارے معاشرے میں رائج تعلیمی نظام کے مطابق، ماں کی گود کے بعد جو تربیت کا بہت بڑا کردار ہے، وہ ’’استاد‘‘ کا ہے۔ استاد کی شان میں بڑی بڑی ہستیوں کے اقوال موجود ہیں، کہیں اسے روحانی باپ کہا گیا تو کہیں ’’زمیں کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں تک‘‘ لے جانیوالا اور عرب کے اس جاہل معاشرے کی کایا پلٹنے والی ہستی کو بھی معلم کہا گیا اور حد ہوگئی اس مقام و مرتبے کی کہ جب کائنات کے خالق نے بھی فرمایا: ’’خلق الانسان، علمہ البیان‘‘ اور ’’الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم‘‘

یہ معلّم کا کام ہی ہے کہ جسے انبیاء کا شیوہ کہا گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ ہی بدل گیا ہے، اب استاد کا احترام نہیں کیا جاتا۔ اب وہ شاگرد نہیں رہے کہ جو دُور سے آتے ہوئے استاد کی تعظیم میں پہلے سے آمادہ کھڑے ہوں اور استاد سے سلام لینے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ شاید ایسا ہو بھی؛ لیکن میرا خیال ہے کہ اب ویسا استاد بھی نایاب ہے کہ جو کمزور طالب علم کو خصوصی توجہّ دے اور کہے میرا بچے چھٹی کے بعد کچھ دیر رُک جانا۔ میں آپ کو تھوڑا وقت دونگا اور وہ بھی فیس کے بغیر۔ جب سے تعلیم کا شعبہ کاروبار بنا ہے، تب سے استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی کمزور پڑ گیا ہے۔ البتہ آج بھی ایسے استاد موجود ہیں کہ جن کے لئے ان کے شاگرد یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں۔

شاگرد ہیں میر ؔسے استاد کے راسخ ؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

اور

استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو

استاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے

امتحانات کے دن ہیں اور بچوں کی تقدیر اساتذہ کے ہاتھوں میں ہے۔ ان دنوں استاد کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ استاد کو قوم کا معمار کہا گیا ہے۔ قوموں اور معاشرے کی ترقی ّ اور تنزّلی میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ استاد کی تشویق اور شاباش ہی ہوتی ہے، جو شاگرد کو ’’اعلٰی علیِّین‘‘ میں لے جاتی ہے اور ’’اَسفلَ سافِلین‘‘ میں بھی۔ اگر یہ شاباش مثبت کام کے لئے ہو تو مولوی میر حسن ؒ کے مکتب سے علامہ اقبالؒ جیسے شاگرد پروان چڑھتے ہیں۔ استاد کی تشویق، شاباش اور ڈھارس ہی ہوتی ہے (یہ مثبت اور منفی دونوں جہات میں اپنا اثر رکھتی ہے)۔ یہ ہوتی تو ایک ہی جملے پر مشتمل ہے ’’تم کرسکتے ہو‘‘ لیکن نہیں معلوم اس ایک جملے میں کتنی طاقت ہوتی ہے کہ جو شاگرد کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہے اور اگر شاگرد کے ذہن میں یہی بات ڈال دی جائے کہ یہ تمہارے بس کا روگ نہیں ہے، تم نہیں کرسکتے، تو پھر اِس جملے سے رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے۔ یہ بات آپ کے بھی مشاہدہ میں ہوگی کہ کتنے ہی ظاہراً کمزور طالب علم تھے کہ جن کو استاد کی تشویق نے بلندیوں پر پہنچایا اور ایسے ہی کتنے ہی قابل اور ذہین طالب علم تھے کہ جو استاد کی بلاوجہ سر زنش کی وجہ سے اپنے اندر ہی گُھٹ کر رہ گئے اور یہ جملہ ان کے اذھان میں نقش ہو کر رہ گیا کہ ’’تم کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘

شاباش، اگر اس بات پر ہو کہ میرے بچے امتحان میں ایک دوسرے کو نقل لگوانی ہے، تاکہ سارے پاس ہو جاؤ اور میری عزت محفوظ رہے تو جب قوم کو ایسی بنیادیں فراہم کی جائیں تو یہی شاگرد جب مختلف مقامات پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے تو کرپشن کا نتیجہ سامنے آئے گا۔ جیسا فیکٹری کو مال دیں گے، ویسی ہی بدلے میں ہمیں پروڈکٹ ملے گی۔ جو چھوٹی سطح پر بیٹھ کر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے تو کیا وہ کسی بڑے عہدے پر بیٹھ کر قوم و ملت کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالے گا۔ ہم جیسا بیج بو رہے ہیں، ویسا ہی کاٹ رہے ہیں۔ short term(کوتاہ مدت) نتائج کی خاطر long term (طویل المدت) کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی اقدار ہیں، جو ہم بچے کے لاشعور میں بٹھا دیتے ہیں تو جب وہ بڑا ہو کر تاجر، ڈاکٹر، انجنئیر، عالم یا حتی ّٰ چھوٹے سے شعبے میں مزدوری کرے گا تو وہ کرپشن کو اپنا حق سمجھ کر سر انجام دے گا۔ کیونکہ استاد نے اسے امتحانات میں حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے بچے پیپر میں ایک دوسرے کا خیال رکھنا، کیونکہ یہ تمھارا حق ہے تو پھر جب ہمارے وزراء کرپشن کریں تو ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ ہم نے اپنی نسل کو یہی تو سبق دیا ہے۔

ایسے ہی اساتذہ کے لئے علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

البتہّ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے اسی معاشرے میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں کہ جو لگن اور محنت سے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور ان کے امتحان کے دوران، ممتحن کے تأثرات یہ ہوتے ہیں کہ اگر ان بچوں کو میں کمرہ ٔامتحان میں بند کرکے چلا جاؤں تو مجھے یقین ہے کہ یہ بچے Cheating نہیں کریں گے، کیونکہ ان کے اساتذہ نے انہیں یہی تربیت دی اور وہ ہے ’’الم یعلم بان اللہ یری‘‘ کیا انسان نہیں جانتا کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.