پاکستان سازشوں کے گرداب میں
قابل افسوس امر یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں دراصل سیاسی جماعتیں نہیں، بلکہ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز یا بیرونی قوتوں کی ایجنٹ ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) انکی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔ یہ جماعتیں جو بظاہر تو پاکستانی ہیں، لیکن یہ یہاں بیرونی قوتوں کے ایما پر ’’پرفارم‘‘ کرتی ہیں۔ چین اور روس کی ناراضگی پاکستان کو تنہا کرنے کے مترادف ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
پاکستان میں امریکی ایماء پر برسراقتدار آنیوالی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے باعث چین اور روس پاکستان سے ناراض ہوچکے ہیں، جبکہ ایران اور ترکی بھی فاصلے پر کھڑے ہو کر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ماضی میں ایک پلان بنا تھا کہ چین اور روس نے مل کر خطے میں اہم کردار ادا کرنا تھا، ایران کو بھی ساتھ ملانے کا پلان تھا۔ لیکن امریکہ نے اس تبدیلی کا ادراک کر لیا اور اپنی سازش سے خطے کی بساط بدل دی ہے۔ سی پیک کی گارنٹر پاک فوج تھی۔ اس کے باوجود اس منصوبے پر بھی کام رُکا ہوا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ گارنٹر نے بھی ہاتھ کھینج لیا ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کی نئی لہر میں بھی امریکہ کا ہاتھ ہے، اس لہر میں سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قابل افسوس امر یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں دراصل سیاسی جماعتیں نہیں، بلکہ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز یا بیرونی قوتوں کی ایجنٹ ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) ان کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔ یہ جماعتیں جو بظاہر تو پاکستانی ہیں لیکن یہ یہاں بیرونی قوتوں کے ایما پر ’’پرفارم‘‘ کرتی ہیں۔ چین اور روس کی ناراضگی پاکستان کو تنہا کرنے کے مترادف ہے اور امریکہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔ یوں پاکستان امریکہ کیلئے تر نوالہ ثابت ہوسکے گا۔ پاکستان کی طاقتور "قوت” جس نے امریکی ایما پر رجیم چینج کی، حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اگر یہ قوت موجودہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کرتی تو پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔
بلاول کے دورہ واشنگٹن میں امریکہ نے یقین دلایا تھا کہ آئی ایم ایف سے آپ کو ریلیف لے کر دیں گے، مگر یہ حسب روایت امریکہ کا دلاسہ دلاسہ ہی ثابت ہوا، عملی طور پر آئی ایم ایف نے پاکستان کیساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ آئی ایم ایف پاکستان سے ناراض ہے۔ آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کو جھنڈی کروا دی ہے۔ یوں پاکستانی عوام کو مستقبل میں کوئی ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ امپورٹڈ حکومت کا مقصد اپنے کیسز ختم کرنا، نیب کا خاتمہ اور مغربی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ امریکہ کیلئے تو کام کر رہی ہے، اپنے عوام کی بہبود کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ پاکستان کے گرد خطرات بہت بُری طرح بڑھ رہے ہیں۔
ادھر افغانستان بھارت کے قریب جا رہا ہے۔ بھارت نے اپنے تعلقات کابل کیساتھ بڑھا لئے ہیں، پس پردہ بہت سے معاملات طے ہو بھی رہے ہیں۔ بھارتی مفادات کے تحفظ کیلئے عبداللہ عبداللہ کو بھی واپس لایا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو کو بھی وزیر خارجہ امریکہ کے کہنے پر بنایا گیا ہے۔ جب بلاول وزیر خارجہ ہوگا تو افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات نہیں بن سکیں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کے افغانستان کیساتھ تعلقات بہتر ہوں، پاکستان کو مائنس کر دیا جائے۔ امریکہ کا منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کیساتھ افغانستان کے تعلقات خراب کر دیئے جائیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان اگر قریب آتے ہیں، تو یہ دونوں مسلمان ملک ہیں، اس لئے ان کی قوت مضبوط ہوگی، امریکہ دونوں کو کبھی نہیں ملنے دے گا۔ امریکہ اور زرداری ایک پیج پر ہیں۔ موجودہ پیپلز پارٹی بیرونی ایجنڈے پر ہی کام کر رہی ہے۔ امپورٹڈ حکومت میں بھی زرداری اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ مقدمات ختم کرنے کیلئے اقتدار میں آئے ہیں۔ پہلے یہ مقدمات ختم کروائیں گے، پھر سیاسی افراتفری پھیلانا ان کے اہداف میں شامل ہے۔
پاکستان میں بجٹ کے بعد جو مارکیٹ کھلی ہے، تو آپ حیران ہوں گے کہ مارکیٹ میں ہر تاجر پریشان ہے، سرمایہ کار پریشان ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی روکنے کیلئے تحریک طالبان کیساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، مذاکرات کرنیوالوں کا خیال ہے کہ طالبان کو راضی کر لیں گے تو وہ حملے بند کر دیں گے۔ طالبان کیساتھ جب معاہدہ ہونے لگا، تو پی پی پی نے فوراً اعتراض اُٹھا دیا۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے طالبان کیساتھ تعلقات بہتر ہوں اور یہاں امن قائم ہو۔ اسی لئے امریکہ نے فوری طور پر پیپلز پارٹی کو یہ شور مچانے کا ہدف دے دیا۔ بلاول نے فوراً اس پر شور مچایا اور تین رکنی کمیٹی قائم کر دی، جو پارلیمنٹ کے ارکان سے رابطے کرکے طالبان کیساتھ ہونیوالے معاہدے کو سبوتاژ کروائے گی۔ پی پی پی کہتی ہے کہ طالبان نے ہی بے نظیر کو قتل کیا تھا۔ لیکن یہ مفروضہ ہے۔ بے نظیر کو بھی راستے سے ہٹانے میں بھی لگتا ہے کہ امریکہ ہی ملوث ہے، کیونکہ پاکستان میں جس اہم شخصیت کو قتل کروایا گیا ہے، اس میں امریکہ ہی ملوث رہا ہے۔
اسلام آباد میں حکومت پارلیمنٹ نہیں، امریکی سفارتخانہ چلا رہا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ امریکی سفارتخانے میں ہزاروں اہلکار کیا کر رہے ہیں۔؟ کیا سفارتخانے میں اتنے لوگ ہوتے ہیں؟؟ امریکی ہی سارے معاملات چلا رہے ہیں۔ پاکستان کیخلاف منظم سازش کی جا رہی ہے۔ اس لئے عوام ہیں یا فوج، دونوں کو ملک کا احساس کرنا ہوگا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ادارے امریکہ سے کیوں ڈرتے ہیں۔ افغانستان تو نہیں ڈرا، ایران تو خوفزدہ نہیں ہوا، جب امریکہ کی بات ہوتی ہے تو چین، روس، ایران پاکستان کی پشت پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکہ سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو بھارت کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا، بھارت بھی جانتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کے ایجنٹ پاکستان کو ’’چارج‘‘ سنبھال چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حملہ کرنے کی کسی کو کیا ضرورت ہے؟ کیا ضرورت ہے کہ فضول میں اسلحہ ضائع کیا جائے۔
موجودہ حکمران تیزی سے اپنے کیسز ختم کروا رہے ہیں۔ کیسز ختم ہوتے ہی پاکستانی قوم کا استحصال شروع ہو جائے گا۔ عمران خان کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی ہے کہ اسے کنارے سے لگا دیا جائے۔ اب عمران خان کو بیک چینل سے پیغام دیئے جا رہے ہیں کہ آپ صبر کریں، الیکشن کروا دیں گے۔ ہمارے اداروں میں بھی تقسیم موجود ہے۔ کچھ لوگ موجودہ نظام کیساتھ نہیں، وہ خاموش ہیں، وہ وقت آنے پر اپنی رائے دیں گے۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے اب کوشش کی جا رہی ہے کہ الیکشن کروا دیئے جائیں، لیکن اس سے پہلے یہ سازش کی جا رہی ہے کہ عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو نااہل قرار دلوا دیا جائے، ججز کو اس حوالے سے آمادہ کیا جا رہا ہے۔ یوں عوام کو یہ کہہ دیا جائے گا کہ انہوں نے کرپشن کی تھی، اس لئے نااہل ہوگئے، ہم نے تو اپنے وعدے کے مطابق الیکشن کروا دیئے ہیں۔ یعنی میدان کلیئر کرکے یہ آزمائے ہوئے گھوڑے اُتارے جائیں گے۔
دوسری جانب ایران پر عالمی ایٹمی ایجنسی کی جانب سے دباو ڈلوایا جا رہا ہے۔ ایٹمی پروگرام سے ایران کی جانب سے کیمرے ہٹائے جانے پر آئی اے ای اے کی پالیسی بدل رہی ہے۔ آئی اے ای اے ہو یا کوئی اور ادارہ امریکہ کے مفادات کے ہی محافظ ہیں۔ آئی اے ای اے کا سربراہ حال ہی میں اسرائیل کا دورہ بھی کرچکا ہے، جہاں وہ نیا ایجنڈا لے کر آیا ہے۔ بھارت ایران سے تیل لے رہا ہے۔ پابندیوں کے باوجود بھارت نے ایران کو اہمیت دی ہے۔ بھارت کو سستے تیل سے غرض ہے۔ خواہ وہ کہیں سے بھی ملے۔ روس سے سستا تیل لے کر انڈیا اپنے عوام کو ریلیف دے چکا ہے۔ اب ایران سے تیل لینے کے بعد مزید ریلیف دے گا اور یوں عوام میں بی جے پی کی ساکھ بہتر ہوگی۔ افغانیوں کو تنگ کرنے کیلئے داعش کو افغانستان میں فعال کر دیا گیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی واپسی بھارت اور افغانستان کے درمیان ڈیل کا نتیجہ اور اشارہ ہے۔ بھارت پاکستان کو سیاسی بحران میں مصروف کرکے خود افغانستان کیساتھ تعلقات بنانے پر زور دے رہا ہے۔
بھارت میں توہین رسالت (ص) کے معاملے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یو اے ای بھارت کیساتھ دوستی مضبوط بنا رہا ہے۔ بطور مسلمان یو اے ای کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کم از کم اس رویئے پر احتجاج تو کرے۔ بھارت مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے، ان کے گھروں کو منہدم کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کے دوست مسلمان ملک اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ ایران نے اس حوالے سے موثر انداز میں احتجاج کیا ہے۔ باقی کسی بڑے مسلمان ملک کی جانب سے ردعمل نہیں آیا۔ عمران خان کیخلاف بھی بہت بڑی سازشیں ہو رہی ہیں۔ عدالتوں میں عمران خان کو گھسیٹا جا رہا ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ عمران خان اور پاکستان دونوں کو دیوار کیساتھ لگا دیا جائے۔ اسی لئے ایسے کیسز تیار کئے جا رہے ہیں، جن میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو جکڑ لیا جائے گا اور ایجنٹوں اور امپورٹڈ حکمرانوں کو زمام اقتدار سونپ دی جائے گی، جو مال بنا کر چلتے بنیں گے۔ عوام کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ان سازشوں کے توڑ کیلئے پاکستان کی فکر کرنا ہوگی۔