ایران انڈیا تعلقات، ہمیں تعصب سے نکلنا ہوگا

ہم ایران کے حوالے سے شائد تعصب کا بھی شکار ہیں۔ کہ کہیں شیعہ ملک سے تجارت کرنے پر سنی دوست ملک ناراض نہ ہو جائیں جبکہ بھارت کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بھارت اس حوالے سے دو ٹوک موقف رکھتا ہے کہ ہمارے عوام کا مسئلہ ہے، عوامی ضرورت کے پیش نظر معاہدے کرتے ہیں۔ مگر پاکستانی حکمرانوں میں اتنی جرات نہیں کہ اپنا موقف ٹھوس انداز میں بیان کر سکیں۔

0 497

تحریر: تصور حسین شہزاد

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ بھارت کے تین روزہ دورے پر دہلی میں ہیں۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب انڈیا میں توہین رسالت(ص) کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ توڑ پھوڑ، جلاو گھیراو اور پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، یہاں تک کہ دہلی کی بادشاہی مسجد کی جانب سے گزشتہ روز کئے جانیوالے مظاہرے پر دہلی سرکار نے مسجد انتظامیہ کیخلاف مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔ ایران نے بھی واضح اور دوٹوک انداز میں توہین رسالت (ص) کے معاملے پر انڈیا سے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ ایران اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔ اس کے باوجود ایران کی کوشش ہے کہ دنیا کیساتھ تعلقات اور تجارت کو بڑھا کر اپنی معیشت کو مزید بہتری کی جانب لے جا سکے۔ اقتصادی پابندی ایران کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکیں، ایران دفاعی لحاظ سے پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوا ہے، ایران کی میزائل ٹیکنالوجی سے لے کر ڈورن ٹیکنالوجی تک، سب چیزوں میں دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔

اب امکان غالب ہے کہ ایران انڈیا کو تیل فروخت کرنے کیلئے تیار ہے اور انڈیا تیل خریدنے کیلئے روس کے بعد ایران کو ہی ترجیح دے گا۔ اس حوالے سے انڈیا کو یہ بھی سہولت ہے کہ ایران جغرافیائی اعتبار سے انڈیا کے قریب ہے، ایرانی تیل آسانی سے انڈیا پہنچ سکتا ہے۔ دوسرا انڈیا نے ایرانی تیل کی مناسبت سے تین آئل ریفائنریز بھی لگا رکھی ہیں۔ انڈیا میں بیروز گاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کو جہاں سے بھی ریلیف ملے گا وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ روس سے تیل خریدنے کے بعد انڈیا نے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کی۔ اب اگر ایران کیساتھ تیل کی خریداری کا معاہدہ کامیاب ہوتا ہے تو اس سے انڈیا میں پیٹرول مزید سستا ہو جائے گا۔ پیٹرول سستا ہونے سے مہنگائی کی شرح میں واضح کمی ہوگی جس سے بھارتی عوام کو ریلیف ملے گا۔ یوکرائن روس جنگ کے باعث روس سے تیل کی فراہمی سست روی کا شکار ہے، جس کا فائدہ انڈیا فوری طور پر ایران کیساتھ معاہدہ کرکے اٹھا سکتا ہے۔

ماضی میں ایران اور انڈیا کی تجارت بارٹر سسٹم کے تحت ہوتی تھی۔ بھارتی کمپنیاں ایران کو انڈین کرنسی میں ادائیگیاں کرتی تھیں اور ایران اسی کرنسی سے انڈیا سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید لیتا تھا۔ اب اس دورے کے دوران اگر ایرانی وزیر خارجہ مودی کو تیل خریدنے پر آمادہ کر لیتے ہیں تو دوبارہ بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کو فروغ ملے گا، صرف ایک تیل کا معاہدہ ہونے سے اور بہت سی چیزوں کی تجارت خودبخود اس سسٹم میں آ جائے گی۔ انڈیا اگر ایران سے تیل خریدنے کا معاہدہ کرتا ہے تو اس معاہدے سے جہاں انڈیا کو فائدہ ہوگا وہاں ایران کو بھی سہارا ملے گا۔ انڈیا کی خارجہ پالیسی ہمیشہ عوام دوست رہی ہے۔ انڈیا نے ہمیشہ اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں صورتحال نہایت عجیب و غریب ہے۔ یہاں پالیسیوں کی تیاری میں اپنا مفاد نہیں بلکہ امریکہ اور سعودی عرب کی خوشنودی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ عوام کی فکر کس کو ہے؟؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.