روس اور مغرب میں جاری اقتصادی جنگ، انجام کیا ہوگا؟
چند دن قبل یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا ہے کہ روس کیخلاف مغرب کی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اتحادی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک طرف تو یوکرین کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف روس کیخلاف عائد اقتصادی پابندیوں کو کم کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں، تاکہ انکی تجارتی سرگرمیوں پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ جرمنی کے جریدے وولٹ ایم سانتاگ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ جرمن کمپنیوں کیخلاف روس کی پابندیوں کے نتیجے میں جرمنی کو ایک سال کے اندر 5 ارب یورو کا نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پہلے جرمنی کی کیمیکل مصنوعات یونین کے صدر کریسٹین کالمین نے بھی روس سے گیس درآمد نہ کرنے کی صورت میں شدید نقصان پہنچنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
تحریر: فاطمہ دخیلی
یوکرین پر فوجی حملے کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔ امریکہ نے عالمی سطح پر روس کی تجارتی سرگرمیوں کو بھی شل کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کیلئے روس کی مختلف برآمدات جیسے زراعتی محصولات، قدرتی تیل اور گیس خریدنے پر پابندی لگا دی۔ لیکن ان پابندیوں کا زیادہ تر نقصان خود امریکہ اور مغربی ممالک کو ہی پہنچا ہے۔ امریکہ میں اس سال کے آغاز سے پٹرول کی قیمتوں میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1970ء میں قدرتی تیل کے بحران کے بعد امریکہ میں پٹرول کی قیمتوں میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ مزید برآں، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک شدید غذائی قلت سے بھی روبرو ہیں جبکہ انہیں 1980ء کے عشرے کے بعد شدید ترین مہنگائی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مذکورہ بالا مشکلات کے نتیجے میں روس کے مقابلے میں امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کی پوزیشن شدید متزلزل ہوچکی ہے۔ یورپی ممالک نے بھی امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے روس کے خلاف بعض اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اور اقتصادی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اقتصادی جنگ میں بھی یورپی ممالک کو ماسکو سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ مغربی ممالک بارہا براہ راست یا بالواسطہ طور پر انرجی کے شعبے میں روس کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں پر اظہار پشیمانی کرچکے ہیں اور اس شعبے میں پابندیاں نرم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اقتصادی اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ روس نے امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شروع کی گئی اقتصادی جنگ کے مقابلے میں اب تک درست حکمت عملی اختیار کی ہے۔
یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے ایک ماہ بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ماسکو کے خلاف مغربی ممالک کی "بے سابقہ پابندیوں” کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں روسی کرنسی ربل کو نابود کر دیں گی۔ ان پابندیوں کے بعد روسی کرنسی کی قیمت نصف ہوگئی اور 7 مارچ کے دن ڈالر کے مقابلے میں 143 روبل کی حد تک گر گئی۔ دوسری طرف مغربی ممالک نے روس کے زرمبادلہ کے ذخائر کو نشانہ بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دیں اور روس کے اسٹیٹ بینک کے بیرون ملک تمام اثاثے منجمد کر دیئے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں روسی عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے بینکوں سے اپنا سرمایہ خارج کرنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف روس بھی مغرب کے ان اقدامات کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھا اور متقابل اقدامات انجام دیئے۔
روس کے انہی اقدامات کے نتیجے میں صرف ایک ماہ بعد ڈالر کے مقابلے میں ربل کی قیمت 40 فیصد بڑھ کر گذشتہ سات برس میں اونچی ترین سطح پر جا پہنچی۔ روسی کرنسی ربل کی قیمت بڑھنے میں کارفرما عوامل میں سے ایک روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا یہ مطالبہ تھا کہ جو ملک بھی روس سے گیس خریدے گا، وہ اس کی قیمت ربل میں ادا کرے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی ملک ان کی یہ شرط قبول نہیں کرے گا تو اسے گیس کی فراہمی روک دی جائے گی۔ سرمایہ کاری کے شعبے میں حکمت عملی کے ماہر الیگزینڈر لاٹیسکو روسی کرنسی ربل کی قیمت بڑھنے میں موثر عوامل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "پابندیوں کے نتیجے میں تیل کی قیمت میں اضافہ، سرمایہ کا کنٹرول اور ڈالر کی مانگ میں کمی اس کے تین بڑے اسباب تھے
چند دن قبل یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا ہے کہ روس کے خلاف مغرب کی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اتحادی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک طرف تو یوکرین کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف روس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں کو کم کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں، تاکہ ان کی تجارتی سرگرمیوں پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ جرمنی کے جریدے وولٹ ایم سانتاگ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ جرمن کمپنیوں کے خلاف روس کی پابندیوں کے نتیجے میں جرمنی کو ایک سال کے اندر 5 ارب یورو کا نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پہلے جرمنی کی کیمیکل مصنوعات یونین کے صدر کریسٹین کالمین نے بھی روس سے گیس درآمد نہ کرنے کی صورت میں شدید نقصان پہنچنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
فرانس کی سابق صدارتی امیدوار میرین لوپن نے انرجی کے شعبے میں روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا: "اگر روس کا تیل ہم نہیں خریدیں گے تو باقی خرید لیں گے۔ روس سے تیل خریدنے پر پابندی کا نتیجہ ہمارے ملک میں پٹرول کی مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ماسکو دیگر ممالک کو تیل بیچ کر زیادہ دولت مند ہو جائے گا۔” اخبار گلوبل ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے: "روس کے خلاف مغربی اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور یہ ٹوٹ پھوٹ حتی روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کئے جانے سے پہلے جاری تھی۔ جرمنی کے وزیر اقتصاد رابرٹ ہابک نے بھی کہا ہے کہ یورپی یونین ٹوٹ رہی ہے۔” لہذا روس کے خلاف مغربی اتحاد اس قدر متزلزل ہے، جو کسی وقت بھی پارہ پارہ ہوسکتا ہے۔