علمدار با وفا پر ایک طائرانہ نظر
امیر المومنین علیہ السلام اپنے فرزند حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّ وَلَدِی الْعَبّاس زَقَّ الْعِلْمَ زَقّاً» میرے فرزند عباس نے اس طریقے سے مجھ سے علم و دانش حاصل کیا جس طرح پرندے کا ایک بچہ اپنی ماں سے دانہ پانی حاصل کرتا ہے۔
علمدار با وفا
جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام
آپکی ولادت با سعادت 4 شعبان المعظم سنہ 26 ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔
سنہ 61 ہجری میں روز عاشور امام حسین علیہ السلام ہمراہ شہادت پائی۔
آپ کی کل عمر 33 یا 34 برس بتائی جاتی ہے۔
آپکے پدر بزرگوار امیر المومنین علی علیہ السلام تھے جبکہ والدہ گرامی، جناب فاطمہ علیہا سلام تھیں جو ام البنین کے لقب سے معروف تھیں۔
امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ 14 برس گزارے، جبکہ امام حسن علیہ السلام کے ہمراہ 9 اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ 11 برس گزارے۔
آپ نے چار معصوم ہستیوں کا زمانہ درک کیا ہے؛امیر المومنین، امام حسن، امام حسین اور امام زین العابدین علیہم السلام
آپ کا نام مبارک ’’عباس‘‘ خود امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے نام پر رکھا۔
آپ کے القاب میں قمر بنی ہاشم، باب الحوائج، سقا، علمدار کربلا اور عبد صابر زیادہ معروف ہیں۔
آپ کی کنیت ابوالفضل بتائی جاتی ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّ وَلَدِی الْعَبّاس زَقَّ الْعِلْمَ زَقّاً» میرے فرزند عباس نے اس طریقے سے مجھ سے علم و دانش حاصل کیا جس طرح پرندے کا ایک بچہ اپنی ماں سے دانہ پانی حاصل کرتا ہے۔ (مقرّم، مقتل الحسین، بیروت، دارالکتاب، ص 169/ سیمای امام حسین ع، ص 182.)
لقب ’’باب الحوائج‘‘ آپ کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اُس وقت ملا جب آپ کریم اہلبیت کے عطا کردہ تحائف، ہدایا اور اشیاء کو مستحق افراد کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے۔
آپ کی ذات گرامی کی نمایاں ترین صفت اپنے امام کا مطیعِ محض ہونا ہے۔ چاہے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلان کی حیات طیبہ کا دور ہو یا اسکے بعد آپ کی شہادت کے موقع پر پیش آنے والے دردناک واقعات ہوں، سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ ہو یا پھر روز عاشور پیش آنے والے واقعات، آپ سراپا اطاعت تھے۔
آپ کی ذات والا صفات امام حسین علیہ السلام کے لئے اُسی مقام کی حامل تھی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ذات کے لئے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شخصیت حامل تھی۔
امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں آپ بڑی قدر و منزلت کے حامل تھے، اس طرح کہ آپ جناب عباس علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھے: بنفسی انت؛ یعنی میری جان تم پر قربان۔ اور آپ کی شہادت کے بعد فرمایا کہ ’’ألآن إنکسر ظھری یا أخی‘‘؛یعنی اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی۔
آپ ایسے امام زادے ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام کی جانب سے تقریبا 11 زیارتنامے وارد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف وہ زیارت ہے جو فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی وارد ہوئی ہے۔ ’’السلام یا ایھا العبد الصالح المطیع للہ و لرسولہ‘‘
امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ بنُ عَلِیٍّ نافِذَ البَصیرَةِ صُلبَ الإیمانِ جاهَدَ مَعَ أبی عَبدِاللّه ِ و أبلی بَلاءً حَسَنا و مَضی شَهیدَا؛ ہمارے چچا عباس بن علی اعلیٰ بصیرت اور پختہ ایمان کے حامل تھے، جنہوں نے ابو عبد اللہ (امام حسین) کی رکاب میں جہاد کیا اور امتحان میں سرخرو ہوئے اور پھر شہادت پائی۔ (عمدة الطّالب ، ص 356 )