استحکام کی جانب گامزن شام سے اسرائیل خوفزدہ
غاصب صہیونی رژیم کی نظر میں شام کی مطلوبہ صورتحال یہ ہے کہ وہاں دہشت گردی کا بازار گرم رہے اور حکومت مسلسل بحرانوں کا شکار رہتے ہوئے عدم استحکام سے دوچار رہے۔ اسی طرح اسرائیل شام میں ملکی سالمیت اور حق خود ارادیت کے بھی خلاف ہے اور جہاں تک ممکن ہو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے درپے ہے۔ مختصر یہ کہ غاصب صہیونی رژیم کسی صورت میں شام میں اسلامی مزاحمت کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی۔ لہذا شام میں عدم استحکام اور بدامنی پیدا کرنا اس جعلی رژیم کی مستقل پالیسی ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو اپنا اور عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے، لہذا اس کے برعکس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ وہ شام کو مضبوط بنا کر اسرائیل کو ایک اور خطرے سے روبرو کرنا چاہتا ہے۔
تحریر: فاطمہ صالحی
تقریباً سات برس پہلے، شام اس وقت شدید سکیورٹی بحران کی لپیٹ میں آ گیا جب وہاں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے سر اٹھانا شروع کیا تھا۔ تکفیری دہشت گرد عناصر دھیرے دھیرے ملک کے بڑے حصے پر قابض ہو گئے۔ ایسے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے روس سے مذاکرات انجام دیے اور اسے شام سے متعلق موثر اقدامات انجام دینے پر قائل کر لیا۔ اس سے پہلے روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حد تک ہی شام میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ شام میں روس کی فوجی مداخلت کا نتیجہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی پسپائی کی صورت میں ظاہر ہوا اور چند سال کے اندر اندر داعش کی بساط لپیٹ دی گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دریائے فرات کے مشرقی علاقے اور شمال میں واقع صوبہ ادلب کے علاوہ تقریباً پورے ملک پر شام حکومت کی رٹ قائم ہو چکی ہے۔
شام میں سیاسی، فوجی اور انتظامی لحاظ سے صدر بشار اسد کی حکومت دن بدن مضبوط اور مستحکم ہوتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں اس ملک میں بحران کے بعد ایک طاقتور حکومت ابھر کر سامنے آنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اسی حقیقت کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کرتی ہے۔ تحریر حاضر میں ہم غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے محسوس کئے جانے والے اس خطرے کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ ان پہلووں سے آگاہی کے بعد ہم اس سوال کا جواب دینے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں کہ آئے دن اسرائیل کیوں شام کو مختلف جارحانہ اقدامات کا نشانہ بناتا رہتا ہے؟ اور مستقبل قریب میں ایسے مزید اقدامات کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے؟ اور ان کا سدباب کیونکر ممکن ہو گا؟
1)۔ شام کی فعال خارجہ پالیسی کا آغاز
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 2011ء سے 2019ء تک شام کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ بعض محققین کی نظر میں شام کو درپیش مشکلات اور چیلنجز اس قدر شدید تھے کہ دمشق کی پوری توجہ اندرونی بحرانوں سے نمٹنے پر مرکوز ہو چکی تھی۔ ان سالوں میں شام کی خارجہ پالیسی بھی اندرونی سکیورٹی ضروریات برطرف کرنے کے گرد گھومتی تھی۔ لیکن اب جبکہ یہ ملک ان بحرانوں سے نجات پا چکا ہے اور روز بروز مستحکم اور طاقتور ہوتا جا رہا ہے، وہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی فعال کردار ادا کرنے کی جانب واپس لوٹنے لگا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر شام خطے میں اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس آ جاتا ہے تو اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ایک طاقتور حریف سے روبرو ہو گی اور یہی حقیقت اس کے خوف کی بنیادی وجہ ہے۔
2)۔ گولان ہائٹس سے متعلق مساواتوں میں اہم تبدیلیاں
ماضی میں شام ایسی کئی مذاکراتی نشستوں میں شرکت کر چکا ہے جن میں اسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے گولان ہائٹس واپس کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس وقت شام حکومت پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے سازباز کرنے کیلئے شدید دباو ڈالا جا رہا تھا جبکہ خطے کی مخصوص صورتحال کی روشنی میں شام بھی اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ اور حتی براہ راست مذاکرات کرنے پر بھی تیار ہو چکا تھا۔ لیکن اسرائیل کی وعدہ خلافیوں کے باعث یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اب شام میں موجود حکومت اندرونی بحرانوں سے عبور کر چکی ہے اور مقبوضہ گولان ہائٹس اور قابض صہیونی رژیم کے بارے میں اس کی نگاہ بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ لہذا اب شام حکومت ماضی کی طرح اس مسئلے پر خاموشی اختیار نہیں کرے گی اور فیصلہ کن اقدامات انجام دے گی۔
3)۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کے ساتھ شام کے مضبوط تعلقات
تکفیری دہشت گردی سے درپیش بدترین سکیورٹی بحران پر مبنی تلخ تجربے اور اس کے بعد ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی مدد سے اس بحران پر کامیابی سے قابو پا لینے کے نتیجے میں شام حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اسلامی مزاحمتی بلاک سے گہرے اور اسٹریٹجک تعلقات انتہائی ضروری ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمتی بلاک نے ہی صدر بشار اسد کی حکومت کو ختم ہونے سے بچایا ہے۔ لہذا شام اب اسلامی مزاحمتی بلاک کا اہم اور موثر رکن بن چکا ہے۔ شام، اسلامی مزاحمتی بلاک میں رہ کر علاقائی سطح پر بھی موثر خارجہ پالیسی اختیار کر سکتا ہے۔ یوں یہ پہلو بھی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی نظر میں بہت بڑا خطرہ ہے۔
غاصب صہیونی رژیم کی نظر میں شام کی مطلوبہ صورتحال یہ ہے کہ وہاں دہشت گردی کا بازار گرم رہے اور حکومت مسلسل بحرانوں کا شکار رہتے ہوئے عدم استحکام سے دوچار رہے۔ اسی طرح اسرائیل شام میں ملکی سالمیت اور حق خود ارادیت کے بھی خلاف ہے اور جہاں تک ممکن ہو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے درپے ہے۔ مختصر یہ کہ غاصب صہیونی رژیم کسی صورت میں شام میں اسلامی مزاحمت کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی۔ لہذا شام میں عدم استحکام اور بدامنی پیدا کرنا اس جعلی رژیم کی مستقل پالیسی ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو اپنا اور عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے، لہذا اس کے برعکس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ وہ شام کو مضبوط بنا کر اسرائیل کو ایک اور خطرے سے روبرو کرنا چاہتا ہے