ٹی ٹی پی کو این آر او دینے کی تیاری
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کیجانب سے حکام کو بعض مطالبات پیش کئے گئے ہیں، جن میں ’’ٹی ٹی پی کی اپنی تنظیم، قوت و اسلحے کے ساتھ قبائلی علاقوں میں واپسی، فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام واپس لینا، امریکی ڈرون حملے مکمل طور پر ختم کرنا، تحریک طالبان پاکستان کے قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے 60 فیصد فوج کی واپسی، آئین پاکستان کی غیر اسلامی دفعات کا ٹی ٹی پی پر اطلاق نہ ہونا، مالاکنڈ میں شرعی نظامِ عدل کا نفاذ اور ٹی ٹی پی کے امراء کیخلاف مقدمات کا خاتمہ ہے۔‘‘
تحریر: سید شاہریز علی
وطن عزیز پاکستان میں ایک طویل عرصہ تک دہشت، قتل و غارت اور آگ و خون کا بازار گرم رکھنے والی دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کیساتھ ریاست پاکستان کی جانب سے مذاکرات کا سلسلہ گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ اس حوالے سے افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پاکستان کے بعض قبائلی مشران ان کے معاون ہیں۔ پہلے تو پاکستانی حکام کی جانب سے اس حوالے سے مکمل طور پر خاموشی اختیار کی گئی، تاہم کچھ عرصہ قبل عسکری سطح پر بھی اس امر کا اعتراف کرلیا گیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن عارضی طور پر معطل کئے جانے کے بعد افغان طالبان کی ثالثی میں تحریک طالبان پاکستان اور ریاست پاکستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرے دور ہوا، جس کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت کے اس مرحلے میں معاملات آگے بڑھے ہیں اور بعض معاملات میں تحریک طالبان پاکستان کو ’’این آر او‘‘ دیئے جانے کے واضح امکانات موجود ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حکام کو بعض مطالبات پیش کئے گئے ہیں، جن میں ’’ٹی ٹی پی کی اپنی تنظیم، قوت و اسلحے کے ساتھ قبائلی علاقوں میں واپسی، فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام واپس لینا، امریکی ڈرون حملے مکمل طور پر ختم کرنا، تحریک طالبان پاکستان کے قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے 60 فیصد فوج کی واپسی، آئین پاکستان کی غیر اسلامی دفعات کا ٹی ٹی پی پر اطلاق نہ ہونا، مالاکنڈ میں شرعی نظامِ عدل کا نفاذ اور ٹی ٹی پی کے امراء کے خلاف مقدمات کا خاتمہ ہے۔‘‘ قبائلی امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینیئر صحافی کے مطابق ٹی ٹی پی کا ایک اہم کمانڈر ان تجاویز کے خلاف ہے اور مزید نقاط کا اضافہ چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عسکری وفد ٹی ٹی پی کے امیر نورولی محسود سے براہ راست ملاقات کا خواہش مند ہے، پاکستانی حکام کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کے لئے تجاویز پیش کر دی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق 150 سے زائد قبائلی عمائدین کا جرگہ مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے کل کابل جائے گا اور اگر ٹی ٹی پی رہنماء حکومتی تجاویز پر راضی ہوتے ہیں تو معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ مذاکرات افغانستان میں روپوش ٹی ٹی پی کی قیادت کیساتھ افغان طالبان کی وساطت سے ہو رہے ہیں۔ سینیئر صحافی طاہر خان کے مطابق عسکری ذرائع نے مندرجہ بالا نقاط پر کسی بھی قسم کے معاہدے/رضامندی کی تردید کی ہے۔ پاکستانی سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ “سنجیدہ” مذاکرات ہو رہے ہیں، اعتماد سازی کے لئے تجاویز پر مشورے ہو رہے ہیں، جنگ بندی میں توسیع بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ذرائع نے سوشل میڈیا پر ٹی ٹی پی مطالبات کو تسلیم کرنے کی خبروں کی تصدیق نہیں کی، ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا حالیہ مرحلہ بدھ یا جمعرات کو شروع ہوا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان کیساتھ مذاکرات میں حکومتی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ریاست پاکستان ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہتی ہے، تاہم یہ بھی واضح ہے کہ اس مرتبہ سب کچھ حکومتی منشاء کے مطابق نہیں ہونے والا بلکہ بات چیت کی کامیابی کیلئے ٹی ٹی پی کے مطالبات کسی نہ کسی حد تک ضرور تسلیم کرنا ہوں گے۔ اگر ٹی ٹی پی کے مطالبات کو دیکھا جائے تو ان میں سے امریکی ڈرون حملے روکنے کے علاوہ کسی ایک نقطہ کو بھی تسلیم کرنے کا مطلب ہزاروں شہداء کی قربانیوں کی توہین ہے۔ اس اہم ترین مسئلہ کو اب تک ملکی پارلیمان میں نہ لیکر آنا اور سیاسی قیادت کیساتھ مشاورت نہ کرنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کے عوام نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، عوامی و سیاسی سطح پر اس مسئلہ کو لازمی ڈسکس ہونا چاہیئے، وطن عزیز میں امن و امان اولین ترجیح، تاہم اس طرح دہشتگردوں کو این آر او دینے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔