نہیں! میں دہشتگرد نہیں ہوں

میرے گھر والے بمشکل زندہ ہیں۔ دوست احباب میں خوف طاری ہے۔ علاقہ والے مجھے اور میرے گھر والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اب اگر میری بے گناہی کا اقرار کرکے مجھے چھوڑ دیں، تب اس معاشرے میں کیا مجھے میرا کھویا ہوا مقام اور مرتبہ دوبارہ مل پائے گا؟ کیا مجھے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا؟ کیا مجھے دیکھ کر اشارے نہیں کیے جائیں گے۔۔۔۔۔ اور اس سب کا جواب میرے پاس بس یہی ہے کہ "نہیں میں دہشتگرد نہیں ہوں۔" اور آپ سے یہ اپیل ہے، گزارش ہے، درخواست ہے کہ ہر ایک کو دہشتگرد نہ بنایا جائے اور ملک کا نظام امن و آشتی سے چلنے دیا جائے۔

0 310

تحریر: سید تعجیل مہدی

نہیں! میں دہشتگرد نہیں ہوں۔۔۔۔ یہ وہ فقرہ تھا، جو ہر ایک تھپڑ، گھونسے اور ٹھوکر پر میں دہراتا تھا۔ ایک تنگ و تاریک 6 بائے 6 فٹ کی کوٹھڑی میں نجانے کتنے دنوں سے بند پڑا تھا۔ آخر یہ کون لوگ ہیں اور مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی تو میں اپنے باس سے چھٹی لے کر خوشی خوشی گھر لوٹا تھا کہ عید کی خوشیاں گھر والوں کے ساتھ مناوں گا۔ عید کے بعد کسی رات جب ہم سب گھر والے دیر تک جاگ رہے تھے اور پورا گھر خوش گپیوں میں مگن تھا، کہیں میری شادی کا تذکرہ ہو رہا تھا تو کبھی شمالی علاقہ جات کی سیر کے پروگرام بن رہے تھے۔ رات گئے تک مختلف باتیں ہوتی رہیں، آخر رات کے آخری پہر تھک ہار کے سونے کی تیاری کی۔ ابھی نیند کی وادیوں میں اترے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ ہڑبونگ سی مچ گئی۔

کمرے میں چھوٹا بھائی بھاگتے ہوئے آیا اور مجھے جگایا، اس کے چہرے پر خوف کی تہیں صاف صاف دکھ رہی تھیں۔ بولا کہ باہر کچھ لوگ آئے ہیں، جو آپ کو بلا رہے ہیں اور گھستے چلے آرہے ہیں، ان کے تیور دیکھ کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہوگئے۔ جس طرح سویا تھا، ویسے ہی بھاگم بھاگ باہر پہنچا تو دو تین درجن مسلح لوگوں کو گھر کے اندر دیکھ کر میں بھی ایک بار گھبرا گیا۔ یا الٰہی! یہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ سارے گھر کی تلاشی لینے کے بعد بھی کچھ نہ ملا تو میرے منہ پر سیاہ کپڑا ڈال دیا گیا اور مجھ سے ساتھ چلنے کو کہا۔ اٹھا کر گاڑی میں پھینک دیا گیا۔ معلوم نہیں کتنی دیر گاڑی چلتی رہی اور پھر کسی جگہ پر رک گئی اور مجھے گاڑی سے نکال کر کسی کمرے میں بند کر دیا گیا۔

دہشت اور خوف کے مارے میری گگھی بندھی تھی۔ میں ایک سیدھا سادہ سا عام انسان تھا، جس نے اپنے تصور میں بھی ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میری آنکھوں میں تو مستقبل کے سنہرے خواب تھے۔ اب جبکہ اس کوٹھری میں آن پڑا کہ جہاں دن اور رات کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ نہ روشنی کا معقول انتظام تھا اور نہ ہی ہوا کا۔حبس زدہ، بدبو دار، تنگ و تاریک کوٹھڑی، جس سے خون کی بو آتی تھی اور جس کے در و دیوار پر نجانے کتنے معصوم لوگوں کا خون جما ہوا تھا، میرے دماغ کی چولیں تک ہلا دینے کے لیے کافی تھی۔ نہ زمان کا پتہ تھا نہ مکان کا۔ نہیں معلوم کہ میری ماں کس حال میں ہوگی؟ والد پر کیا گزر رہی ہوگی! بھائی کیسے ہونگے؟ ان کے لیے تو یہ سانحہ قیامت سے ہرگز کم تر نہیں ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے نور نظر کو رات کی تاریکی میں چاردیواری اور چادر کا تقدس پامال کرتے ہوئے گن پوائنٹ پر اٹھا لیا جائے اور ایسے کئی سوال اور سوچیں میرے دل و دماغ کو گھیرے ہوئے تھیں۔

بہرحال میں نے خود کو تسلی دی اور اپنے ماضی کو کنگھالنا شروع کیا کہ کہیں مجھ سے نادانستہ طور پر کوئی جرم تو سرزد نہیں ہوا، جس کی پاداش میں یہ دن دیکھنا پڑا۔ دیر تک ماضی کریدنے کے باوجود کوئی قابل گرفت جرم یا گناہ نہ ملا تو میں نے آج تک کیا کیا سرگرمیاں سرانجام دیں، ان کے بارے سوچنا شروع کر دیا۔ اچانک کوٹھری کے باہر آواز آئی اور مجھے دوبارہ کس کے باندھ دیا گیا اور چہرے پر نقاب لگانے کے بعد کسی ہال میں لایا گیا۔ نقاب اتار دیا گیا۔ سامنے والے چہرے نقاب میں تھے۔ مجھ سے طرح طرح کے سوالات شروع ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ایسے سوال داغے گئے، جس پر میں پریشان ہوگیا کہ میں تو ایک شریف شہری ہوں، یہ نجانے کیوں مجھے دہشتگرد بنانے پر تلے ہیں۔ سوال کا جواب دینے میں تامل کرتا تو کئی طرح سے اذیت دی جاتی، جو میری برداشت سے قطعی باہر تھی۔ میں ناز و نعم میں پلا، ماں باپ کا لاڈلا بیٹا، بھلا ان کا ٹارچر کیسے سہہ پاتا۔

جب تک جسم میں اذیت سہنے کی سکت ہوتی، سہتا اور جب بے جان ہو کر گر جاتا تو وہ دوبارہ ہوش میں لاتے۔۔۔ کسی ہمدردی سے نہیں بلکہ دوبارہ اذیت دینے کے لیے۔۔۔ میں ساتھ ہی ساتھ خدا سے دعا کر رہا تھا کہ خدایا اس عذاب سے نجات دے۔ مجھ سے سوال کیا گیا کہ تمہارے دہشتگرد گروہ میں تمہارے ساتھ اور کون کون ہے؟ان کے نام اور پتے بتاو۔۔۔ گھما پھرا کر بار بار یہی سوالات کیے جاتے۔۔۔ اور پھر طرح طرح سے اذیت دی جاتی۔ اس ہال میں ٹارچر کے کئی آلات موجود تھے۔ وہ مجھے ہولناک کہانیاں سنا کر ڈراتے کہ یہاں سے ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا اور پھر تھپڑوں کی بارش میں وہی سوال دہراتے۔۔۔۔ اور میں ہر بار یہی جواب دیتا کہ میں دہشتگرد نہیں ہوں۔۔۔۔ نہیں معلوم کہ کتنے دن تک یہی کچھ ہوتا رہا، کیونکہ مجھے وقت کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہاں ایسے ایسے ظلم و ستم ڈھائے جاتے کہ جن سے روح تک کانپ اٹھے۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے یقیناً "کچھ نہ کچھ تو کیا ہوگا” تبھی ایسے ہوا، مگر میرا یقین کریں کہ میرا جرم مجھے اس کے سوا کوئی نظر نہیں آیا کہ میں ملک عزیز کا محب وطن شہری تھا۔ اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ چودہ اگست جوش و خروش سے مناتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ 15 اگست کو اپنے محلے کی گلیوں میں پڑی جھنڈیاں اٹھایا کرتا تھا۔ وطن سے محبت تو مجھے گھر سے ہی مل گئی تھی۔ یوم پاکستان کے موقع پر مینار پاکستان کے اس تاریخی مقام پہ حاضر ہوتا، مفکر پاکستان کے مرقد پر پھول چڑھاتا تھا۔ ملک اور ملک کے اداروں سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ اگر کوئی شخص میرے ملک پر ذرا سی بات بھی کرتا تو میں بگڑ جاتا اور اس سب کے ساتھ ساتھ میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا محب و موالی تھا۔ حسین ابن علی کا عزادار و ماتم دار تھا۔ مجالس و جلوس ہائے عزا میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا، ان کا اہتمام و انصرام، مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنا ہی مجھے اپنا جرم محسوس ہوا۔

اور یہ ایسا ناقابل معافی جرم ٹھہرا کہ جس کی بنیاد پر مجھے رات کی تاریکی میں اپنے گھر سے بغیر کسی گرفتاری کے وارنٹ کے، پاکستان کے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اغواء کر لیا گیا۔ میرے گھر والے بمشکل زندہ ہیں۔ دوست احباب میں خوف طاری ہے۔ علاقہ والے مجھے اور میرے گھر والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اب اگر میری بے گناہی کا اقرار کرکے مجھے چھوڑ دیں، تب اس معاشرے میں کیا مجھے میرا کھویا ہوا مقام اور مرتبہ دوبارہ مل پائے گا؟ کیا مجھے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا؟ کیا مجھے دیکھ کر اشارے نہیں کیے جائیں گے۔۔۔۔۔ اور اس سب کا جواب میرے پاس بس یہی ہے کہ "نہیں میں دہشتگرد نہیں ہوں۔” اور آپ سے یہ اپیل ہے، گزارش ہے، درخواست ہے کہ ہر ایک کو دہشتگرد نہ بنایا جائے اور ملک کا نظام امن و آشتی سے چلنے دیا جائے۔

نوٹ: یہ ہر جبری گمشدہ کی کہانی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.